• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی قیادت، لیڈر شپ کے راہ نُما اصول (دوسری قسط)

خود احتسابی، مثبت تنقید، بے لاگ احتساب اور جواب دہی کا تصوّر

اسلامی فلسفۂ سیاست اور نظامِ حکم رانی کے بنیادی اصولوں کے تحت ریاست کا قائد اور سربراہِ مملکت مطلق العنان نہیں ہوتا، بلکہ وہ کتاب و سنّت کے سامنے اُسی طرح جواب دہ ہوتاہے، جس طرح ایک عام مسلمان جواب دہ ہے۔ 

اُمّت کو اس پر تنقید کا پورا پورا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق بھی حاصل ہے کہ اُس کے خلاف ایسی جائز تدابیر اختیار کرے، جس سے وہ مجبور ہوجائے کہ اپنے غلط اقدام کو واپس لے، جس کا مطلب یہ ہے کہ راہِ راست پرگام زن رہنا، جہاں خود حاکمِ وقت کے لیے ضروری ہے، وہاں یہ بات اُمّت کے فرائض میں بھی داخل ہے کہ وہ ریاست کے قائد، سربراہِ مملکت کو (قومی قیادت اور لیڈر شپ) کتاب و سنّت اور عدل و انصاف کے تقاضوں سے منحرف نہ ہونے دے۔

اُمّت کو اصلاح کا یہ حق حاصل ہے اور اس کی وضاحت حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اس پہلے خطبے سے ہوتی ہے، جو آپؓ نے جمہورِ صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا۔’’اے لوگو! مَیں تمہارا والی مقرر کیا گیا ہوں، مَیں تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر مَیں بھلائی کروں، تو میری مدد کرو، اگر میں بُرائی کروں، تو تنبیہ کرو، سچائی امانت ہے اورجھوٹ خیانت، تم میں جو ضعیف ہے، وہ میرے نزدیک طاقت وَر ہے، یہاں تک کہ مَیں اُس کا حق دلوادوں اور قوی ضعیف ہے، یہاں تک کہ اس سے غریب کا حق دِلوادوں، میری اطاعت کرو، جب تک میں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرتا ہوں اور اگر میں نافرمانی کروں، تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں۔

قائدانہ صلاحیت، بالغ نظری، سیاسی بصیرت، فہم و فراست 

اسلام کے منطقی نظریے کے مطابق ریاست اور امارت (قومی قیادت) کے حصول کے لیے صرف اچھی ولایت کی قدرت کافی نہیں، بلکہ ایک مسلمان حاکم کے لیے یہ شرط بھی بہت ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں سیاست کی سب سے بہتر سُوجھ بُوجھ رکھتا ہو اور سیاسی امور میں کوئی دوسرا شخص اس سے زیادہ ماہر نہ ہو۔ 

اس شرط کے پورا ہونے پر یہ اُمّت کے تمام مصالح اور ان کے مفاد سے زیادہ باخبر ہوگا، اُمّت کے تمام امور اور ضروریات اسے اچھی طرح معلوم ہوں گی، تاکہ حاکم اپنے کاموں میں ناکام نہ ہو اور ملکی نظم و نسق، ریاستی معاملات کو بہ حُسن و خوبی چلاسکے۔

اسی قاعدے کی وجہ سے اسلامی ریاست کے حاکمِ اعلیٰ اور امیر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ سیاسی اور اجتماعی دُور اندیشی اور فہم و فراست میں اس درجہ بلند ہوکہ اس کے ذریعے قوم کے سیاسی اور اجتماعی راستوں پر ان کی مکمل رہنمائی کرسکے اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنی ملّت اور قوم کو ترقی اور آگے کی منزل تک لے جائے۔

شیرِ خدا، حضرت علی مرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں۔’’اے لوگو! ولایت اور امارت کے منصب کاحق دار وہ شخص ہے، جو اس منصب کے حق کو اچھی طرح ادا کرسکے اور اس منصب کا بوجھ اُٹھانے کی طاقت و ہمّت رکھتا ہو، دوسروں کی بہ نسبت احکامِ الٰہی سے زیادہ باخبر ہو کہ اگر کہیں کوئی شخص امارت کے اوامر سے بغاوت کرے یا شرارت پھیلائے، تو اُسے سزا دے اور اگر وہ سزا کے باوجود باز نہ آئے، تو اُس کے ساتھ جنگ کی جائے۔ 

اسلام کی نظر میں حاکم کے لیے اہم شرط یہ ہے کہ وہ رعیت کی قیادت کے امور احسن طریقے سے سنبھال سکے، قیادت کی ضروری اہلیت اور صلاحیت اس میں موجود ہو۔ مذکورہ شرط کی تاکید اس لیے بھی ہے کہ اسلامی ریاست اُن مسائل و مشکلات سے محفوظ رہے، حکم رانوں کی سیاسی کم زوری، وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں سے بے خبری کی وجہ سے جنم لیتی ہیں کہ اس ناسمجھی، غفلت اور کم زوری کے سبب اسلامی حکومت باطل قوتوں اور دشمنوں کی آلۂ کار بن جائے گی اور آخرکار زوال اس کا مقدّر ٹھہرے گا۔ یہ مشکلات و نقصانات قوموں کی تاریخ میں بہت بُرے اثرات مرتّب کرتے ہیں۔

یہ ایک روشن، تاریخی حقیقت ہے کہ رسولِ اکرم، شاہِ کونین، سرکارِ دوجہاں، حضرت محمد ﷺ قائد و حاکم، ریاستِ مدینہ کے امیر و منتظم اور سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اعلیٰ درجے کے مُدبّر، حکومت، قیادت و سیادت اور حکم رانی کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ آپؐ نے وہ قانونی اور سیاسی کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو تمام عالم کے انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہیں۔ 

آپ ؐ کی ذاتِ اقدس سیاسی دائرے میں بھی نئے نئے اصول، قوانین، احکام، ہدایات اور اساسی تنظیمات کا سرچشمہ ہے، جن کی بنیاد پر قدیم فطری تصوّرات ایک نئے اور متوازن نظام سے آشنا ہوئے۔ حضوراکرم ؐ کے بعد اسلامی حکومت اپنی صحیح شکل، منہاجِ نبوت اور سچّے آثار کے ساتھ خلفائے راشدینؓ کے دَور میں ملتی ہے اور تاریخی واقعیت اور درست اسلامی تعلیمات پر قائم ہونے کے اعتبار سے اس دَور کو اسلامی حکومت کا ’’عصرِ اوّل، کہا جاتا ہے۔

اندیشی اور مستقبل پر گہری نظر

قائد کے لیے اہم ترین چیز وژن (بصیرت) ہے۔ مستقبل میں تبدیلی وہی لاسکتا ہے، جو مستقبل میں دیکھ سکتا ہے (آنے والے حالات، مسائل، چیلنجز کا ادراک رکھتا ہو اور ان کے سدِّباب اور حل پر قادر ہو)۔ جب کہ قائد، ماضی کی کام یابیوں، ناکامیوں پر غور و فکر کرکے ماضی سے سبق بھی حاصل کرتا ہے اور اس کا یہ سارا عمل مستقبل کے لیے ہوتا ہے، کیوں کہ بہرحال، اسے آگے جانا ہوتا ہے۔ 

اس نقطۂ نظر سے دنیا پر نظر ڈالیں، تو صاف نظر آئے گا کہ وہی افراد اور قومیں قیادت کے منصب پر فائز ہیں اور ماضی میں بھی فائز رہی ہیں، جنہوں نے اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص رہتے ہوئے مستقبل کو سمجھنے، جاننے، اس کا تجزیہ کرنے اور اسے سیاسی بصیرت، فہم و فراست، بالغ نظری اور بہترین نظم و نسق کے مطابق ڈھالنے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔

قیادت و حکم رانی کی اہلیت، ملکی نظم و نسق اور امورِ مملکت سے کامل واقفیت 

حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ترجمہ:’’جس نے کسی قوم کا وزیر (عامل، قائد، حاکم) مقرر کیا اور اس جماعت میں اس آدمی سے زیادہ اللہ کا پسندیدہ بندہ موجود تھا، تو اُس نے اللہ کے ساتھ خیانت کی اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ بھی خیانت کی، اور تمام مسلمانوں کے ساتھ بھی خیانت کی۔‘‘ (طبرانی/المعجم الکبیر، رقم الحدیث 11216)۔ 

رسول اللہﷺ کے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ وزیر (حاکم، قائد، قومی قیادت اور امورِ مملکت پر) ایسے شخص کو مقرر کرنا چاہیے، جو ان لوگوں میں اللہ کا زیادہ پسندیدہ ہو اور پسندیدہ ہونے میں قوی، باہمّت، امانت دار، اہل اور اس شعبے کا واقف کار ہو۔ جونظامِ مملکت، سرکاری امور اور نظم و نسق کو پور ے طور پر جانتا ہو، وہی قیادت و سیادت کا سب سے زیادہ اہل اور مستحق ہے کہ قیادت اور رہبری خود اس شرط اور صفت کا تقاضا کرتی ہے۔ 

سو، لازم ہے کہ حاکم اور رئیسِ مملکت میں مذکورہ صفات بدرجۂ کمال موجود ہوں۔ اسلام حاکم اور قائد کے لیے یہ شرط مقرر کرتا ہے کہ حاکم کو امورِ مملکت، ریاستی نظم و نسق اور سرکاری امور میں دوسروں سے زیادہ مہارت ہونی چاہیے اور یہ کہ ریاست کا حاکم قیادت کے کاموں کو دیگر لوگوں سے اچھے اور بہتر طریقے سے سنبھالنے والا ہو۔رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ پاک، آپ ﷺ کی حیاتِ طیّبہ اور بے مثل اسوۂ حسنہ اُمّت کے لیے قیادت اور رہنمائی کے حوالے سے ایک بہترین نمونہ ہے۔ 

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے بارے میں اپنے کلام پاک میں یوں ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’یقیناً رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘(الاحزاب/21)۔ لہٰذا اسلامی ریاست میں ایسی قیادت کا انتخاب عمل میں لایا جائے، جو اس منصب کے تقاضے کو سمجھتی ہو، صادق اور امین ہو، قیادت و سیادت کی بنیادی اہلیت رکھتی ہو، قیادت و حکم رانی کے لیے ہر لحاظ سے اہل اور اس کے دینی، دنیوی اور تمام سیاسی و دیگر تقاضے پورے کرتی ہو۔

ریاستی معاملات، قومی سلامتی اور اہم سرکاری اُمور میں کامل مشاورت 

اسلامی ریاست میں قومی قیادت اور مسلمان سربراہِ مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ہر اقدام میں اہلِ نظر اور ان اصحاب سے مشورہ کرے، جو دین و مملکت کے اسرار و رموز سے اچھی طرح آگاہ ہوں اور یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کرے کہ اس کا کوئی بھی اقدام اسلام کے مزاجِ عدل کے کہاں تک مطابق ہے۔

اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خود شاہِ کونین، سیّد عرب و عجم، حضرت محمد ﷺ ریاستِ مدینہ کے مختلف معاملات میں ’’شوریٰ‘‘ طلب کرکے مشاورت فرماتے تھے۔ جن میں سے چند مواقع درج ذیل ہیں(1) شورائے اذان، 1ہجری۔ (2) شوریٰ بدرالکبری،ٰ 2ہجری۔ (3) شوریٰ اُسارائے بدرالکبریٰ، 2ہجری۔ (4) شورائے اُحد، 3ہجری۔ (5)شورائے خندق، 5ہجری۔(6) شورائے اِفک، 6ہجری۔(7) شورائے حُدیبیہ، 6ہجری۔ (8) شورائےاسیرانِ ہوازن، 8ہجری۔ (9) شورائے معاذ بن جبلؓ۔

ابلاغ کی اہلیت اور مافی الضّمیر کے اظہار پر مکمل عبور

مسلمان حاکم، سربراہِ مملکت اور اسلامی ریاست میں قومی قیادت پر فائز فرد کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اُسے ابلاغ اور مافی الضّمیرکے اظہار پر مکمل عبور حاصل ہو، نیز وہ سلیم الفطرت اور صاحبِ ذوق شخصیت کا حامل ہو۔ 

دوسروں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ بہترین تعبیر و تشریح کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس میں قائد اور رئیسِ مملکت ہونے کی صفات اعلیٰ درجے میں پائی جانی چاہئیں کہ یہی وصف ادارے کی قیادت کی اساس اور بنیاد شمار کیا جاتا ہے، پھر قائد اور ریاست کا امیر اِسی کے ذریعے اپنی رعیت کو مطمئن کرسکتا ہے۔ 

یاد رہے، ایک حاکم جتنا فصیح البیان اور قادرالکلام ہوگا، وہ اپنی ذمّے داریوں کی ادائی میں اتنا ہی کام یاب و کام ران ہوگا۔مختصر یہ کہ ابلاغ اور مافی الضّمیر کا اظہار قیادت اور حکم رانی کا بنیادی تقاضا ہے۔ اسے اسلام میں قیادت اور رہبری کی جملہ اہم بنیادوں میں شمار کیا جاتا ہے، تاکہ امور مملکت کو پوری سمجھ بوجھ، سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی سے انجام دیا جاسکے۔

فرض شناسی اور احساسِ ذمّے داری

فرض شناسی اور احساسِ ذمّے داری بھی ’’قومی قیادت‘‘ کا بنیادی تقاضا ہے کہ اسلام میں ریاست و حکم رانی کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ حکومت، اس کے اختیارات اور اموال، اللہ اور مسلمانوں کی امانت ہیں، جنہیں مخلص، خدا ترس، ایمان دار اور عادل لوگوں کے سپرد کیا جانا چاہیے اور اس امانت میں کسی شخص کو مَن مانے طریقے پر یا نفسانی اغراض کے لیے تصرف کا حق نہیں۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘(النساء،58)۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’کوئی حکم راں، جو مسلمانوں میں کسی رعیّت کے معاملات کا سربراہ ہو، اگر اس حالت میں مَرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکا اور خیانت کرنے والا تھا، تو اللہ اس پر جنّت حرام کردے گا۔‘‘(بخاری، کتاب الاحکام، باب8۔ مسلم، کتاب الامارہ باب5)۔

یہ احساسِ ذمّے داری اور فرض شناسی ہی تھی کہ 22لاکھ مربع میل پر حکم رانی کرنے والے خلیفۂ دوم، سیّدنا عمر فاروقؓ فرماتے تھے،’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوک سے مرگئی، تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہیں اس کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھ لے۔‘‘ حضرت عمرؓ اکثر فرمایا کرتے تھے’’اگر مَیں دن کے وقت سوجاؤں، تو رعیت کو ضائع کروں گا اور اگر رات کے وقت سوجاؤں تو اپنی ذات کو ضائع کروں گا، تو ان دو وجوہ کی بناء پر میں کیسے سو جاؤں؟‘‘

حق گوئی، بلند ہمّتی، جرأت و استقامت

حق گوئی، بلند ہمّتی اور جرأت و استقامت بھی وہ بنیادی اوصاف ہیں، جن سے اسلامی ریاست کے قائد، قیادت و حکم رانی پر فائز اور مسند نشین حکم راں کا متصّف ہونا ضروری ہے۔ حق گوئی، بلند ہمّتی اور جرأت و استقامت اگر امیر ریاست، حاکمِ وقت اور قومی قیادت میں موجود نہ ہو تو قومی سلامتی، ملکی عزت و وقار، قومی سلامتی سے متعلق امور سے متعلق جرأت مندانہ فیصلے ناممکن ہیں۔ نیز، ملکی سرحدوں کا دفاع، عسکری و دفاعی امور کی انجام دہی اور ملک و ملّت کا تحفّظ بھی ان اوصاف کے بغیر ممکن نہیں۔

احترامِ انسانیت، انسانی حقوق کا تحفّظ

اسلامی ریاست کے فرائض میں انسانی حقوق کا تحفّظ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی نقطۂ نظر سے ’’عدلِ اجتماعی‘‘ کے ساتھ یہی وہ اہم بات ہے، جس کے لیے یہ معاشرتی تنظیم وجود میں آئی، جہاں بھی چند انسانوں کی جمعیت قائم ہوگی، وہاں زیادتی، ظلم اور جبر کا امکان ہوگا اور طاقت وَر اپنی طاقت کے بَل بُوتے پر کم زوروں پر دست درازی کرسکے گا، تو ریاست کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ کسی بھی رعایت کے بغیر ہر ایک کے حقوق کا تحفّظ کرے۔

اظہارِ رائے اور حرّیتِ ضمیرکی آزادی

ایسی حکومت میں، جس کی بنیاد اللہ کی حاکمیت اور انسان کی عبدیت و خلافت کے تصوّر پر ہوگی، حکومتی امور میں آزادئ رائے اور حرّیتِ ضمیر کی پوری اجازت ہے، لہٰذا قومی قیادت اور لیڈر شپ کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ ریاست میں عوام کو اظہارِ رائے کی آزادی، مثبت اور تعمیری تنقید کی پوری اجازت دیں۔ اُن پر کوئی قدغن نہ لگائیں کہ یہ قومی قیادت اور لیڈر شپ کے راہ نما اصولوں میں سے ایک ہے،البتہ دینی معاملات میں ماہرینِ شریعت کو اصولِ شریعت کے ماتحت رائے دینے کی پوری آزادی ہے۔ 

بہرحال، اسلامی حکومت میں آزادیِ رائے اور حرّیتِ ضمیر کا معنیٰ یہ ہیں کہ دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے ہر انسان اس حق کو استعمال کرسکتا ہے۔جب کہ آزادیِ رائے کے ضمن میں حضورِاکرمﷺ سے بہت سی احادیث بھی منقول ہیں۔ ایک حدیث میں حضورِاکرم ﷺ نے فرمایا’’سب سے افضل جہاد، ظالم حاکم کے سامنے کلمۂ حق بلندکرنا ہے۔‘‘ (جاری ہے)