• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی قیادت، لیڈر شپ کے راہ نُما اصول (پہلی قسط )

دینِ اسلام، اسلامی عقائد اور دینی شعائر پر کامل ایمان

اسلامی ریاست کے امیر، حاکم، مسلم سربراہِ مملکت، قومی قائد اور قومی قیادت کے لیے پہلا راہ نما اصول دینِ اسلام پر کامل ایمان و یقین، اسلامی عقائد، دینی شعائر اور اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہونا ہے، یہ اسلامی طرزِ حکم رانی کا سب سے پہلا اور بنیادی تقاضا ہے، لہٰذا اسلامی ریاست کے قائد اور سربراہ کے لیے مسلمان ہونا، پہلی قطعی اور حتمی شرط ہے۔ کوئی شخص جو اللہ کا حکم بردار (مسلم) نہیں، وہ مسلمانوں کی حکومت کا قائد نہیں ہوسکتا اور یہ شرط کسی مذہبی تعصّب پر مبنی نہیں، بلکہ یہ انسانی سماج کی بھلائی و بہتری ہی کے سبب عائد کی گئی ہے۔

یوں بھی اگر تمام انسان خدائے واحد کی اطاعت پر جمع ہوجائیں، تو دنیا سے تمام فتنوں، خرابیوں کا خاتمہ ہوجائے اور خراب حال دنیا متحدہ انسانیت کا متحدہ وطن بن جائے۔اسلامی ریاست کے امیر، قائد اور مسلمان سربراہ کی پہلی صفت یہ ہے کہ اوّل وہ ’’مسلمان‘‘ ہو، نیز، اسلام اور مسلمانوں کا خیرخواہ ہو۔ 

دینِ اسلام، اسلامی عقائد، دینی شعائر، قرآن و سنّت اور اسلامی تعلیمات پر کامل یقین رکھتا ہو، جب کہ اسلامی مملکت کے تمام چھوٹے، بڑے مناصب پر بھی مسلمان افراد کا فائز ہونا ضروری ہے، کیوں کہ کافریا غیر مسلم کو مسلمانوں اور اسلام کی رہنمائی تفویض کرنا جائز نہیں۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ:’’اور اللہ تعالیٰ ہرگز مسلمانوں کے مقابلے میں کفّار کو غلبہ عطا نہیں کرے گا۔‘‘ (سورۃ النساء/ 141)اس حوالے سے اُمّت کا اجماع ہے اورتمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ کفّار کو مسلمانوں کے مسائل و تدابیر تفویض نہ کیے جائیں اور کافر کے لیے مسلمانوں پر کوئی ولایت نہیں۔ 

اس اجماع کو بہت سے اہلِ علم نے نقل کیا ہے، جب کہ قرآنِ کریم نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔ترجمہ: ’’میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔‘‘ (سورۃالبقرہ/124)اور ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا۔ ترجمہ:’’بے شک، شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (سورئہ لقمٰن/13)۔

لہٰذا جو شخص کفر و شرک میں مبتلا ہے، وہ قرآنِ کریم کی اس آیت کی رُو سے سب سے بڑے ظلم کا مرتکب ہے، جب کہ پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی خلافت (قیادت و حکم رانی) کسی ظالم شخص (دینِ اسلام کے باغی کافر و ملحد) کو نہیں مل سکتی۔ یوں یہ ایک سو فی صد منطقی بات ہے کہ اگر کوئی اسلامی حکومت ہے، تو اس کا سربراہ مسلمان ہی ہونا چاہیے کہ اسلامی حکومت کے مقاصد ایک غیر مسلم پورے نہیں کرسکتا۔

خوفِ خدا، تقویٰ اور پرہیزگاری

اسلامی ریاست کے قائد، امیرِ ریاست، سربراہِ مملکت اور قومی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوفِ خدا اور پرہیزگاری کے اعلیٰ اوصاف سے متصف ہو، اس لیے کہ اگر قیادت میں خوفِ خدا نہیں ہوگا، تو وہ دیانت اور امانت، خود احتسابی کے احساس کے ساتھ امورِ مملکت اور ملکی نظم و نسق چلانے میں ناکام رہے گی، لہٰذا یہ ایک بنیادی شرط ہے، جس کا پورا ہونا مخلص قیادت کے لیے ایک ضروری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ِایمان کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’سو، ڈرو اللہ سے جہاں تک ہوسکے۔‘‘ (سورئہ تغابن/16) 

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’جسے تقویٰ کی دولت دی گئی، اُسے دنیا و آخرت کی بھلائی دی گئی۔‘‘(علی متقی ہندی/کنزالعمال،3/91، رقم الحدیث 5641)۔ ہر شعبۂ زندگی میں بالخصوص اور قیادت و حکم رانی میں اس کی ضرورت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ 

خلیفۂ اوّل سیّدنا صدّیقِ اکبرؓنے اپنے دو عاملوں (گورنرز) عمروؓ اور ولید بن عقبہؓ کو تقویٰ کی وصیت یوں فرمائی:’ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ 

اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ دُور کردے گا اور اُسے بڑا اجر دے گا، یقیناً خشیتِ الٰہی وہ بہترین چیز ہے، جس کی نیکو کار بندے آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا تقویٰ و پرہیزگاری اور خوفِ خدا کے بغیر، اسلامی ریاست کا قیام و استحکام، بقاء و سالمیت اور مُلکی نظم و نسق چلانا ناممکن امَر ہے۔

نیک سیرت و کردار، اعلیٰ اخلاقی اوصاف

اسلامی نظامِ حکومت اور دیگر نظاموں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے عمال اور نمائندے، امیرِ ریاست، حاکم، اسلامی ریاست کی سیادت و قیادت پر فائز قومی قیادت اور لیڈر شپ کچھ خاص صفات اور اخلاق کی حامل ہوتی ہے۔ وہ اخلاق اور صفات جن کا اسلام اُن سے مطالبہ کرتا ہے، جن پر پورا اُترنا اُن کے لیے راہ نُما اصولوں میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

بالخصوص نیک سیرت و کردار اور اعلیٰ اخلاقی اقدار و اوصاف سے اُن کا متصف ہونا قیادت اور حکم رانی کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہ وہ اصول ہے، جس کے بغیر قیادت و حکم رانی کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔ قرآنِ کریم، احادیثِ نبویؐ، اجماعِ اُمّت، اسلام کا فلسفۂ سیاست و حکومت اس بات پر گواہ ہیں کہ اسلام میں حکم رانی اور قیادت کے لیے نیک سیرت و کردار، اچھی شہرت کا حامل ہونا اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متصف ہونا اشد ضروری ہے۔

’’اخلاص اور حبّ الوطنی‘‘

ہر عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص بنیادی شرط ہے، لہٰذا مسلمان ہونے کے بعد سب سے پہلی اور اہم صفت ’’اِخلاص‘‘ ہی ہے، چناں چہ قیادت و حکم رانی کا بنیادی تقاضا ہے کہ قیادت اور لیڈرشپ اوّل تا آخر مخلص اور محبِّ وطن ہو، مفاد پرست، موقع پرست اور ملک و قوم کے درد سے عاری حکم راں نہ تو مخلص ہوسکتے ہیں اور نہ محبِّ وطن۔ 

اسلامی فلسفۂ سیاست کے مطابق قیادت اور لیڈر شپ کا مخلص اور محبِ وطن ہونا ایک ضروری امَر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’تم اپنے دین کو خالص رکھو، اس کے نتیجے میں تمہارا تھوڑا سا عمل بھی تمہارے لیے کافی ہوجائے گا۔‘‘ (بیہقی/شعب الایمان5/342، رقم الحدیث6861 ) ایک موقعے پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مخلصین‘‘ کے لیے بشارت اور خوش خبری ہے۔ 

یہ ہدایت کے چراغ ہیں، اُن سے ہر فتنہ دُور ہوتا ہے۔ ( بیہقی/شعب الایمان 5/343 ) آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’اے لوگو! تم اپنے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتے رہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ انہی اعمال کو قبول کرتا ہے، جو خالص اُس کی رضا کے لیے ہوں، اور ایسا مت کہو کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اپنے رشتے داروں کے لیے ہے۔‘‘ (بلکہ پورا عمل اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو)‘‘ (دارقطنی/سنن دارقطنی1/141، رقم الحدیث:129)، بیہقی/ شعب الایمان 5/335)

لہٰذا مخلص اور محبِّ وطن قیادت ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی، عوام کی فلاح و بہبود، قانون کی بالادستی اور عوامی حقوق کی بہتر طور پر نگہداشت کے ساتھ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے۔

دیانت و امانت کا پوری طرح پاس و لحاظ

اسلام کے نزدیک حکومت، قیادت اور حکم رانی اللہ کی ایک امانت ہے۔ چناں چہ حضرت عمرؓ نے اپنے دَورِ خلافت میں ایک مجلسِ مشاورت کی افتتاحی تقریر میں اس طرح فرمایا۔ ’’مَیں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے، وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کے معاملات (وسائل) میں امانت کا جو بار مجھ پر ڈالا گیا ہے، اُسے اٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔‘‘ 

قرآنِ کریم نے گو لفظِ امانت صاف طور پر حکومت کے لیے استعمال نہیں کیا، لیکن مندرجہ ذیل آیت میں جس امانت کا ذکر ہے، اس میں بالواسطہ حکومت بھی آجاتی ہے۔ ترجمہ:’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو وہ اُسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، لیکن انسان نے اُسے اُٹھا لیا، بے شک، وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘(الاحزاب/72)۔

قرآن نے جہاں ’’امانت‘‘ کی ادائی کا حکم دیا ہے، وہاں یہ بھی حکم دیا ہے کہ جب لوگوں کے درمیان حکومت کے امور کو چلاؤ، تو انصاف کو مدِّنظر رکھو۔ حدیث اور تاریخی آثار سے بھی اس امَر کی تائید ہوتی ہے کہ حکومت کی حقیقت کے اظہار میں ’’امانت‘‘ کا بڑا دخل ہے۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے سرورِ دوعالم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے بھی حکومت کا کام سپرد فرمادیجیے۔ 

اس کا جواب ملا :’’ابو ذرؓ! حکومت امانت ہے۔ یہ ہر شخص کو نہیں دی جاسکتی۔‘‘ فاروقِ اعظمؓ کا قول ہے ’’جو شخص حکومت کی ذمّے داریوں کو مناسب صُورت میں تقسیم نہیں کرتا، وہ اللہ اور اُس کے رسول اور مسلمانوں کے حق اور اُن کی امانت میں خیانت کرتا ہے۔‘‘ علّامہ ابن تیمیہؒ بہترین حُکم رانی (گڈ گورننیس) کے دو سُتون قرار دیتے ہیں، امانت اور انصاف۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’امانت‘‘ کا اساسی مفہوم حکومت ہے اور اچھی حکومت کے آئینے میں امانت ایک مؤثر عنصر کی طرح کارفرما ہے۔

لہٰذا اسلامی ریاست میں قومی قیادت (لیڈر شپ) سربراہِ مملکت، حاکمِ وقت اور ریاست کے دیگر ذمّے دار افراد اور کار پردازوں کے لیے یہ بنیادی شرط ہے کہ ’’دیانت و امانت‘‘ ان میں کامل طور پر موجود ہو، اس لیے کہ قیادت اور حکم رانی درحقیقت امانتِ خداوندی ہے، یہ ایسے ہی افراد کو تفویض کی جاسکتی ہے کہ جو خود بھی امین ہوں اور اُن کی قیادت و حکم رانی سے متعلق افراد بھی پورے طور پر اس شرط پر پورے اُترتے ہوں، دیانت و امانت کے بغیر قیادت و حُکم رانی کا تصوّر بھی محال ہے۔

صداقت و امانت (صادق و امین) ایفائے عہد اور وعدے کی پاس داری 

حاکمِ وقت کو اپنے قول میں ’’صادق‘‘ اور لوگوں سے کیے ہوئے وعدوں میں ’’امین‘‘ وفادار اور ہر سطح پر دیانت و امانت کا پیکر ہونا چاہیے۔ ایفائے عہد اور وعدے کی پاس داری کتنی اہمیت کی حامل ہے، اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’اور پورا کرو عہد کو، بے شک، عہد کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل /34)

ایک اورجگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے- ترجمہ:’ ’اے ایمان والو! عہد کو پورا کرو۔‘‘ (المائدہ/1)رسول اللہ ﷺ نے ایفائے عہد اور وعدے کی پاس داری کے حوالے سے فرمایا۔’’اُس آدمی کا دین کامل نہیں، جو وعدے کا پابند نہیں۔‘‘ (بیہقی / سنن بیہقی، 6/288رقم الحدیث12470)۔

دین کی بالادستی، قرآن و سنّت اور اسلامی شریعت کا نفاذ

اسلامی ریاست کے قائد، حاکم، امیر اور لیڈر شپ کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ شریعتِ اسلامی کو نافذ کرے، خلافِ اسلام امور کو روکے، اسلامی اقدار کے احیاء و تحفّظ کے لیے کوشاں رہے۔ نظامِ صلوٰۃ و زکوٰۃ قائم کرے، معروف و مُنکر کی تمیز کرے اور معروف کے قیام اور مُنکر کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ 

قرآنِ پاک میں ہے۔ ترجمہ:’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں تمکن (حکومت) عطا کریں، تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘(سورۃ الحج/41)۔ایک مقام پر فرمایا گیا۔ ترجمہ: ’’تم وہ بہترین اُمّت ہو، جسے نوعِ انسان کے لیے پیدا کیا گیا ہے، تم نیک کام کرنے کا حکم کرتے اور بدی سے روکتے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (سورئہ آل عمران/110)۔ 

ایک اور مقام پر فرمایا گیا۔ ترجمہ:’’تم میں ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے، جو خیر کی طرف بلایا کرے، اور نیک کاموں کی ہدایت کرے اور بُرے کاموں سے روکا کرے اور ایسے لوگ پورے کام یاب ہوں گے۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران /103۔104)۔ ان آیات نے اسلامی ریاست کی اجتماعی ذمّے داری کی حیثیت بیان کردی کہ اس کا کام صرف افراد کے دنیوی مفادات کا تحفّظ ہی نہیں، اخلاقی فساد کی روک تھام اور خیر و فلاح کا اہتمام بھی اس کے ذمّے ہے۔

عدل و انصاف کی یقینی ضمانت اور اجتماعی عدل کا قیام

اسلامی ریاست کا سب سے بڑا مقصد اجتماعی عدل کا قیام ہے۔ اگر کوئی ریاست، اس کے حُکم ران، قومی قیادت اور لیڈر شپ عدل و انصاف کی فراہمی اور اجتماعی عدل کے قیام میں ناکام ہو تو وہ بے کار ہے۔ معاشرتی نقطۂ نظر سے بھی ریاست کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ اجتماعی عدل قائم کرے۔ اسلامی ریاست بھی اس اہم فریضے پر خاص توجّہ دیتی ہے۔ قرآنِ پاک میں عدل کی اہمیت کو خصوصیت سے بیان کیا گیا ہے۔ 

ارشادِ ربّانی ہے۔ ترجمہ: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اُتارا، جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔‘‘(سورۃ الحدید/25)۔ اس آیت میں لوہے سے مراد سیاسی قوت ہے اور کتاب و میزان وہ معتدل نظام ہے، جس کے تحت اجتماعی عدل قائم ہوتا ہے۔ 

ارشادِ ربّانی ہے۔ ترجمہ:’’اے ایمان والو! انصاف کےعلم بردار اور اللہ کے لیے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتے داروں ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو۔ (فریقِ معاملہ) خواہ مال دار ہو یا غریب، تو اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشوں کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو، اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا، تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔‘‘(سورۃ النساء /135)۔

اور رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’اور مجھے حُکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں۔‘‘ان آیات و احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اسلامی ریاست پر عدل و انصاف کے قیام اور اجتماعی عدل کی کتنی ذمّے داری ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے قرآن و سنّت نے کس قدر زور دیا ہے۔ (جاری ہے)