• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس میں 10ڈویژن 36اضلاع اور ایک 124 تحصیلیں ہیں۔تقریبا 13 کروڑ آبادی کا یہ صوبہ دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔ آپ ایک ایسے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہیں جہاں نواب افتخار ممدوٹ،میاں ممتاز دولتانہ اور غلام مصطفیٰ کھر جیسے جاگیردار،ملک معراج خالد اور جناب حنیف رامے جیسے دانشور، غلام حیدر وائیں جیسے سادہ منش اور درویش، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف جیسے صنعت کار،چوہدری پرویز الٰہی جیسے زیرک سیاستدان اور عثمان بزدار جیسے نالائق اور نااہل لوگ اس منصب پر فائز رہے۔تاہم حالیہ انتخابات میں پنجاب کے نوجوان ووٹرز نے ذات برادری کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا تاہم مبینہ طور پر فارم 47 کے نتیجے میں موجودہ نظم نسق وجود میں لایا گیا اور پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ موجودہ وزیراعلیٰ کے حوالے کیا گیا۔ گزشتہ سال فروری کے آخر میں جب انہیں وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایک سیاسی گھرانے کی تربیت یافتہ خاتون ہیں، ان کے چچا اور والد وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔وہ اقتدار کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں،افسر شاہی کی چالوں کو بھی سمجھتی ہوں گی،عوامی مزاج کے اتار چڑھاؤ سے آگاہی ہوگی، قوم کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوگا اور ان کی ترجیحات میں کچھ ایسے نکات ہوں گے جس سے ہمارا صوبہ ترقی کرے گا اور پنجاب کو کوئی نیا عثمان بزدار نہیں بھگتنا پڑے گا۔ لیکن بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت ایک دائرے میں گھوم رہی ہے۔سول بیوروکریسی کے دفاتر میں فائلیں تو ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک کا سفر طے کر رہی ہیں لیکن عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔پنجاب کے لاٹ صاحب ہاتھ باندھے وزیر اعلیٰ کے سامنے نظر آتے ہیں جبکہ اضلاع میں موجود افسران کے سامنے عوام ہاتھ باندھ کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔حالیہ دنوں میں تجاوزات کا حکم نامہ جب سامنے آیا تو تمام سمجھدار لوگوں کا ماتھا ٹھنکا کہ ایک ایسا موقع کہ جب پورے ملک میں کاروباری سرگرمیاں منجمد ہیں، مزدور روٹی کو ترس رہے ہیں، عام شہری روزگار کے حالات سے تنگ ہیں، دکاندار گاہکوں کی راہ دیکھ رہے ہیں،کاروباری حجم سکڑ چکا ہے، مصنوعی طور پرا سٹاک ایکسچینج تو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے لیکن حقیقی طور پر ہمارے ملک کے بازار ویران ہیں، جو کاروباری لوگ بازار میں اپنی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں وہ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ بتانے کے بجائے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایسے ماحول میں اچانک وزیراعلیٰ پنجاب سے ایک ایسا حکم نامہ جاری کرایا گیا جس سے پورے صوبہ میں توڑ پھوڑ کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوا جس کا کوئی اختتام نہیں۔میں بطور شہری کبھی بھی تجاوزات کے حق میں نہیں رہا۔یہ درست ہے کہ تجاوزات نے شہروں کا حسن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور چھوٹے شہروں میں تو پیدل چلنا محال ہو چکا ہے لیکن میری دانست میں اس وقت تجاوزات سے بھی بڑھ کر سب سے بڑا مسئلہ پنجاب میں امن و امان کی بحالی ہے۔ اس وقت پورا صوبہ جرائم پیشہ عناصر کے نرغے میں ہے پولیس کی رٹ عملا ختم ہو چکی ہے۔ پہلے صرف کچے کے ڈاکوؤں کی دہشت تھی اب تو گنجان آباد شہروں میں دن دہاڑے لوگ لٹ رہے ہیں۔شہریوں کو بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں۔ انکار کی صورت میں یا تو ان کے گھروں پر فائرنگ کر دی جاتی ہے یا انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ضلعی پولیس افسران کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دھمکیاں دینے والے لوگ ملک سے باہر نہیں بلکہ صوبے اور اپنے اضلاع میں موجود ہیں۔وہ ویڈیو کال پر پنجاب پولیس کو دھمکیاں دیتے ہیں اور پھر ان کی ریکارڈنگ اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر لگا دیتے ہیں۔ہمارے موجودہ آئی جی پنجاب جو کہ ڈی پی او سرگودھا بھی رہ چکے ہیں شاید ریٹائرمنٹ کے دہانے پر پہنچنے کی وجہ سے ان میں کام کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے،۔ ایک ایسی فورس جو ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی گولیوں کے نشانہ پر ہو، روز پولیس کے شہداء کے جنازے اٹھائے جا رہے ہیں، معذوروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،ان حالات میں بعض افسران کے دفاتر ٹک ٹاک کے اسٹوڈیو کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔معمول کے کام کو سوشل میڈیا کی زینت بنا کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ان ایام میں تجاوزات جیسے کام پر توجہ دینے کے بجائے زیادہ مناسب تھا کہ امن و امان کی صورتحال پر توجہ دی جاتی۔بھتہ خوروں کا قلع قمع کیا جاتا۔تاوان مانگنے والوں کو نکیل ڈالی جاتی۔پولیس پر حملہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا لیکن کاغذی کارروائیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا۔

محترمہ وزیر اعلیٰ صاحبہ!امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے آپ اپنے چچا سے ہی مشورہ کر لیتیں جو جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ سختی سے نپٹنے میں شہرت رکھتے تھے۔آپکے پاس ذوالفقار چیمہ جیسے کرائم فائٹر موجود ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے ڈاکوؤں اور بھتہ خوروں کو نشان عبرت بنادیا تھا ان سے مشاورت کریںاور کچھ ایسا کریں کہ عام شہری کی زندگی محفوظ ہو جائے۔پنجاب کو اس وقت تجاوزات کے خلاف آپریشن کی ضرورت نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی ضرورت ہے، پنجاب کو اس وقت بازاروں میں تھڑے گرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈکیتوں کے گھر گرانے کی ضرورت ہے،پنجاب کو بازاروں میں دہائی دینے والے تاجروں پر آنسو گیس شیل پھینکنے کی ضرورت نہیں، بلکہ عوام کے جان و مال کے دشمنوں پر گولیاں چلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب کو سوشل میڈیا سے نکل کر عوام میں آہنی کارکردگی دکھانی چاہئےتاکہ عوام کو سکھ کا سانس ملے اور ریاست واقعتا ماں کے روپ میں نظر آئے۔

تازہ ترین