او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے 30 سے زائد مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کردیے گئے۔
کامسٹیک کنسورشیم آف ایکسیلنس (CCoE) کی دوسرے سالانہ اجلاس اور او آئی سی کے رکن ممالک کے اعلیٰ سطحی وفد کے ہفتہ بھر کے دورے کے اختتام پر ’اسلام آباد اعلامیہ‘ جاری کردیا گیا۔
او آئی سی کے 17 نمایاں جامعات اور اداروں کے 28 رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا ایک ہفتے کا دورہ کیا، جس کے دوران شراکت داری کے فروغ اور مختلف موضوعات پر بات چیت کی گئی۔
اس وفد میں فلسطین، ملائیشیا، بنگلادیش، عمان، اردن، روس، صومالیہ، یوگنڈا، تنزانیہ، موریتانیہ، انڈونیشیا اور ایران کے نمائندے شامل تھے۔
اس دورے کے دوران وفد نے CCoE کی دوسری سالانہ میٹنگ اور پانچویں ریکٹرز کانفرنس میں شرکت کی، جس میں پاکستانی جامعات کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز بھی شریک ہوئے۔
اس اہم دورے کے دوران تعلیم، تحقیق اور صنعت میں تعاون بڑھانے کے لیے 30 سے زائد مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے گئے۔
وفد نے پاکستان کی معروف جامعات اور صنعتی اداروں کا دورہ بھی کیا، جن میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، دی یونیورسٹی آف فیصل آباد، یونیورسٹی آف دی پنجاب، اور گورمے فوڈز شامل ہیں، تاکہ مشترکہ منصوبوں کے مواقع تلاش کیے جا سکیں۔
یہ اتفاق کیا گیا کہ سائنس، ٹیکنالوجی، اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا، جس میں مشترکہ تحقیقی منصوبے، تربیتی پروگرام، ورکشاپس، سیمینارز، فیکلٹی اور ماہرین کے تبادلے، اور ایک ایسا مؤثر نظام وضع کرنا شامل ہے جس کے ذریعے رکن ممالک ایک دوسرے کے تجربات، مہارت اور علم سے استفادہ کر سکیں۔
تعلیمی اور تحقیقی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے وفد نے CCoE کے پاکستانی وائس چانسلرز کو مستقبل میں مشترکہ تعاون کے مواقع پر تبادلہ خیال کے لیے مدعو کیا۔
میٹنگ کے اختتام پر کامسٹیک کنسورشیم آف ایکسیلنس کے اہداف کو عملی اور نتیجہ خیز شراکت داری کے ذریعے آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
’اسلام آباد اعلامیہ‘ او آئی سی رکن ممالک کے اس اجتماعی عزم کی علامت ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور تعلیم کو پائیدار ترقی کے کلیدی عوامل کے طور پر بروئے کار لایا جائے۔
اس دورے کے دوران قائم ہونے والی شراکت داریاں اختراع، علم کے تبادلے اور طویل مدتی ترقی کی راہ ہموار کریں گی، جو پورے او آئی سی خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔