• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آجکل پاکستان میں اچھا رشتہ ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا کہ کسی سرکاری محکمے میں کوئی ایماندار افسر ڈھونڈنا۔ قحط الرجال کے اس دور میں ہر دو کو ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ خاکم بدہن ہماری اس تحریرسے کسی سرکاری افسر کی شان میں گستاخی قطعاً مقصود نہیں۔ اس کا ایک ثبوت ،جسکی تفصیل ہم آگے جا کے بیان کریں گے، تو یہ ہے کہ ہم خود اپنے رشتے کیلئے کئی سرکاری افسران کے دروازوں پر دستک دے چکے ہیں۔ ہماری تحریر کا مقصدصرف عوام الناس کو، قانون کی حکمرانی کی طرح، ملک میں اچھے رشتوں کی ناپید ہوتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔اس قصہ کی ابتدا لگ بھگ تین چار سال قبل اس وقت ہوئی جب ایک دن دادی مرحومہ (جو ہمارا رشتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پچھلے سال اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں) نے اچانک فیصلہ سنایا کہ لڑکا جوان اور باروزگار ہے اسلئے اب بلاتاخیر کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈ کر اس کی شادی کر دی جائے۔ دادی کا حکم بجا لاتے ہوئے رشتہ کی تلاش شروع کر دی گئی۔ اب آپ سے کیا پردہ ، ہم آپ کو اپنے بارے میں بتاتے چلیں کہ میری تعلیم بی اے ہے اور میں ایک پرائیویٹ فرم میں بطور اکاؤنٹینٹ کام کر رہا ہوں۔ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں۔ بابو صابو لاہور میں دس مرلے کے ذاتی گھر کے علاوہ اپنے آبائی علاقے چیچہ وطنی میں دس ایکڑ زرعی زمین بھی ہے۔ تفصیل بتانے کا مقصد تحریر کو اشتہار برائے ضرورت رشتہ بنانا مقصود نہیں (واضح رہے اب ہم شادی سے تائب ہو چکے ہیں) بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ ان کوائف کے ساتھ ہم نے رشتہ ڈھونڈنے کا آغاز کیا تھا۔

اگر حق سچ بات کریں تو مسائل کا آغاز ہمارے اپنے گھر سے ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مطلوبہ لڑکی کی خصوصیات اور خوبیوں کے حوالے سے ہماری دادی مرحومہ، والدہ اور سات بہنوں کو ایک پیج پر آتے آتے لگ بھگ چھ مہینے لگ گئے۔ دادی ہر چیز پر سمجھوتہ کرنے پر تیار تھی سوائےلڑکی کے قد کے (واضح رہے ہمارا قد پانچ فٹ چار انچ ہے)۔ دراصل دادی مرحومہ کے اندیشہ ہائے دور دراز مستقبل میں ہونے والے پڑ پوتے پڑپوتیوں کے حوالے سے تھے۔ ہماری والدہ ایک سادہ لوح خاتون ہیں اس لئے ان کی ڈیماند کوئی زیادہ نہیں تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ لڑکی توصرف ڈاکٹر ہونی چاہیے۔ ویسے دیکھا جائے تو ان کی یہ خواہش بے جا نہیں تھی۔ ان کا بچپن سے یہ خواب تھا کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا مگر قسمت سے کون لڑ سکتا ہے۔ اب ڈاکٹر بہو کی صورت میں ان کو اپنا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آ رہا تھا تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ اسی طرح بہن کا خیال تھا لڑکی ماں باپ کی اکلوتی اولا نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اکلوتی اولاد عام طور پر بگڑی ہوئی ہوتی ہے۔ چھوٹی بہن بہت سمجھدار اور حقیقت پسند تھی۔ اس نے مشورہ دیا کہ لڑکی کسی بڑے اور امیر گھر سے ہونی چاہئے۔اتنے اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے پیدا کرنا بلاشبہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی فل کورٹ ریفرنس میں معزز جج صاحبان کے بیچ اتفاق رائے پیدا کرنے سے کم سہل نہیں تھا۔ مگر چونکہ گھر میں کسی قسم کی بیرونی ڈکٹیشن نہیں تھی اسلئے آخر کار کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر لڑکی کی مطلوبہ کوالی فیکیشن پر اتفاق رائے قائم کر لیا گیا۔آخر خدا خدا کر کے وہ دن آپہنچا جب میرے گھر والے مطلوبہ لڑکی کے متفقہ علیہ کوائف بغل میں دبائے تلاش کیلئے نکل پڑے۔ ہم بھی ہر روز اپنی ہونے والی بیوی کا فرضی خاکہ ذہن میں سجائے دفتر پہنچتے اور وہاں بھی تھوڑا شرمائے شرمائے سے رہتے۔

شریک حیات کی تلاش کا یہ سفر مگر اتنا آسان ثابت نہ ہوا۔ پہلے کچھ عرصہ تو ہمارے گھر والوں کو مطلوبہ معیار کی لڑکی نہ مل سکی مگر بعد میں معاملات ہمارے گھر والوں کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گئے۔ آخرایک جگہ لڑکی تو ہمارے گھر والوں کو پسند آگئی مگر ان کو ہمارے اس دینا میں ان سے پہلے تشریف لانے پراعتراض تھا۔ اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ بڑا بھائی ہے بہنوں کی شادی کراتے کراتے بوڑھا ہو جائے گا۔ اسی طرح کچھ عرصہ بعد گھر والوں کا ایک اور رشتہ پر تقریباً اتفاق رائے ہوا ہی تھا کہ وہاں سے اعتراض آیا کہ ہمارا گھر اگر نہر کے مشرقی طرف ہوتا تو رشتہ کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو بابو صابو بھیجنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اگلہ رشتہ ایک درمیانے درجےکے سرکاری افسر کے گھر تھا۔ ان کوہمارے سرکاری افسر نہ ہونے پر تحفظات تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پرائیویٹ فرم کی سوکھی تنخواہ میں گذارا کرنا ہماری بیٹی کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ ایک اور جگہ بات تقریباً پکی ہونے والی تھی کہ اچانک لڑکی کی بہن نے چیچہ وطنی پر اعتراض لگا دیا۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ہم اب مستقل لاہور شفٹ ہو چکے ہیں مگر ان کو خدشہ تھاکہ چیچہ وطنی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے اندر زندگی بھر موجود رہے گا۔لاہور کے چاروں حلقوں کی عرق ریزی سے چھان مکمل ہوچکی تھی مگر اچھا رشتہ کہیں بھی نہ مل سکا۔ پھر گھر والوں نے باہم مشورہ کر کے اپنے معیار کو اچھے رشتہ سے مناسب رشتہ میں تبدیل کیا مگر پھر بھی بات بنتی نظر نہ آئی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ ہم کبھی کسی رشتہ دار کو کسی محلے میں ملنے جاتے تو گلی محلے کے لڑکے دور سے آواز لگاتے کہ وہ دیکھو رشتہ ڈھونڈنے والے پھر آگئے ہیں۔ پچھلے سال جب دادی اماں اپنے اکلوتے پوتے کی شادی کا خواب سجائے اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو ہم نے بھی زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

تازہ ترین