• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان زرعی اعتبار سے بہترین ملک سمجھا جاتا ہےاور دیہی آبادی کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے۔ قدرتی طور پر یہ ملک چار موسم اور اس لحاظ سے متنوع فصلیں پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی طلب پوری کرنے کیساتھ ساتھ برآمدات میں زرعی شعبہ ہمیشہ پیش پیش رہاہے۔ زرعی شعبے پر ٹیکسوں کے نفاذ سے متعلق آئی ایم ایف نے جو اعدادوشمار جمع کر رکھے ہیں، یہ اہداف پورا کرنے میں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں انکی ٹیم پوری تندہی سے عمل پیرا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 7ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری کے تحت یہ رقم 37ماہ پر مشتمل اقساط میں جاری کی جائے گی اور طے کی گئی شرائط میں زرعی شعبے پر انکم ٹیکس کا نفاذ انتہائی اہم ہے۔ ملک میں زرعی ٹیکس کے نفاذ کا تقاضا برسوں سے چلا ا ٓرہا ہے، جسے پورا کرنے میں ماضی کی حکومتوں کو شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترتے ہوئے صوبوں کو زراعت پر ٹیکس کے نفاذ کیلئے اعتماد میںلیا ہے،جسے تسلیم کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی 14نومبر2024ء جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے 27جنوری 2025ء کو زرعی ٹیکس کے نفاذ کا بل منظور کرلیا ہے۔ دونوں صوبے وفاق کے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کے مطابق یکم جنوری 2025ء سے زرعی ٹیکس وصول کریں گےجبکہ ملک بھر سے زرعی ٹیکس کی وصولی کا تخمینہ 65ارب روپے بنتا ہے۔وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں منعقدہ سیشن کے بعد میڈیا کےروبرویہ واضح کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کی منظوری کے بعد باقی دو صوبوں کے ساتھ زرعی ٹیکس کے نفاذ پر بات چیت کا عمل جاری ہے۔ قانون سازی کےبعد زراعت کی ذیل میں آنے والے لائیو اسٹاک کے شعبےپر بھی ٹیکس لاگو ہوگاجبکہ زیادہ آمدنی والےزمینداروں پر سپر ٹیکس نافذ ہوگا۔12لاکھ سے زائد آمدنی پر 15فیصدانکم ٹیکس کے علاوہ 90ہزار روپے سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ 16لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر 30فیصد انکم ٹیکس اور ایک لاکھ70ہزار روپے سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ 32لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی پر 40فیصد انکم ٹیکس اور 6لاکھ50ہزار روپے سپر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ 56لاکھ روپے سے زائد زرعی آمدنی پر 45فیصد انکم ٹیکس اور 16لاکھ10ہزار روپے سپرٹیکس عائد ہوگا۔واضح رہے کہ 7ارب ڈالر پروگرام سے متعلق رپورٹ میں آئی ایم ایف نے زور دیا تھا کہ پاکستان کو بار بار بوم بسٹ سائیکل(معاشی بہتری پھر تنزلی)سے بچنے کیلئے گزشتہ 75سالہ معاشی تاریخ پر نظردوڑانی چاہئے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنے جیسے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہےاور جمودسے دوچار معیشت نے معیار زندگی کو متاثر اور 40.5فیصد سے زائد آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔پاکستان کی آبادی کا بڑاحصہ نہ صرف دیہی ، بلکہ اکثریت کا روزگار براہ راست اور بالواسطہ طور پر زراعت وابستہ ہے،جن میں چھوٹے کسان بھی شامل ہیں۔خیال رہے کہ مہنگی بجلی،کھاد اور مہنگے بیج سے ان کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔پاکستان کے اقتصادی سروے 2023ءکے مطابق قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 22فیصد جبکہ یہ شعبہ 37فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔آئی ایم ایف کی فصلوں کیلئے امدادی قیمت اور کاشتکاری کیلئے دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے سے یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہواہے۔ دوسری طرف زرعی ادویات،کھاد ،بیج اور بجلی سمیت دوسری اشیا پر عائدبھاری ٹیکسوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے چھوٹے کسانوں کو ممکنہ مسائل سے بچانا ضروری ہے ۔جس کیلئے وفاق کے تعاون سے صوبوں کو فائدہ مند اسکیمیں متعارف کرانی چاہئیں۔

تازہ ترین