• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک بار پھر بات چیت کی دعوت اس امکان کا اعادہ ہے کہ فریقین مل بیٹھ کردرپیش صورتحال میں بہتری کی راہ نکال سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کی تکمیل اس کی طے کردہ تاریخ تک نہ ہونے کو جواز بناکر جو فیصلہ کیا گیا، اسکے بعد بظاہر وہ کاوشیں ضائع ہوتی محسوس ہورہی ہیں جو پی ٹی آئی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے مصالحتی کردار کی صورت میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ مگر ایسا سوچنا درست نہیں ۔ مذاکرات میں رکاوٹیں، رخنے، ناکامیابیاں سامنے آتی ہیں۔ ان سب کا حل مزید مذاکرات ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت صدق دل سے مذاکرات کیلئے تیار ہے، تحریک انصاف آئے، ہم ہائوس کمیٹی کی کارروائی آگے بڑھانے کیلئے تیار ہیں، ہائوس کمیٹی 2018ء اور 2024ء کے الیکشن کی تحقیقات کرے، اسی طرح پارلیمانی کمیٹی 26نومبر 2024ء کے دھرنے اور 2014ء کے دھرنے کا بھی احاطہ کرے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کاکہنا ہے کہ وزیراعظم کا بیان ہمارے مطالبات سے ہٹ کر ہے، ہم نے اسیران کی رہائی پر جوڈیشل کمیشن بنانےکا مطالبہ کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے مطالبات بات چیت کے بغیر درست طور پر سامنے آسکتے ہیں؟ فریقین جب مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو ان امور کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے جن کے جواب مطلوب ڈگر سے ہٹے محسوس ہوتے ہیں۔ مذاکرات ناکام ہوں تو بھی مزید مذاکرات ضروری ہوتے ہیں تاآنکہ کوئی متفقہ راستہ نہ نکل آئے۔ انسانی تہذیب اور تمدن کو مذاکرات نے ہی آگے بڑھایا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم کی نئی آفر ایک نئے مکالمے کا ذریعہ بنے اور یہ مکالمات اس وقت تک جاری رہیں جب تک ملک کے مفاد میں کوئی اتفاق رائے سامنے نہیں آجاتا۔

تازہ ترین