• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک ملک میں بڑھتی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں شتر بے مہار اضافے سے عام آدمی ہی نہیں، متوسط اور کسی حد تک اس سے اوپر کے طبقات بھی متاثر ہوئے ہیں جبکہ روز افزوں مہنگائی سے حکومت کے ٹھوس، مربوط اور جامع اقدامات و فیصلوں سے ہی عوام کو نجات مل سکتی ہے۔ اس کیلئے فیصلے انہی منتخب ایوانوں میں ہونے ہیں جن کے ارکان عوام کے اقتصادی مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل منظور کرا رہے ہیں جس کیلئے ایسی تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں کہ یہ ارکان اقتصادی مسائل کے بوجھ تلے دبے مظلوم انسان نظر آئیں۔ لیکن قوم کے مسیحا کہلوانے والے حکمراں،وزراء و سفرا ء کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی ناقص پالیسیوں اور قول و فعل کے تضادات کے سبب عالمی سطح پر ملک وقوم کو کس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آج کل بھی ایسی ہی خبر میڈیا و اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہے جسے مقروض پاکستان کے حوالے سے کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کیا جائے گا۔خبر کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا فرمائشی پروگرام کچھ ردو کد کے بعد قبول کرتے ہوئے ان کی تنخواہو ں میں یکمشت 3لاکھ سے زائد کا اضافہ منظوری کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھجوایا جو منظور کر لیا گیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت یہ سفارشات پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں طے پائی تھیں۔ واضح رہے کہ مالیاتی بجٹ 2024-2025میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا اختیار فنانس کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا اور اب فنانس کمیٹی کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں پنجاب کے ارکان اسمبلی کے برابر کی جائیں۔ اس وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 2لاکھ 18ہزار روپے ہے، پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی سفارشات پر اب ہر رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 5لاکھ 19ہزار روپے ہوجائے گی،وزیر اعظم کی منظوری کے بعد اگر چہ تنخواہوں میں اضافے کا یہ معاملہ دونوں ایوانوں کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں جائے گا لیکن غالب امکان ہے کہ وہاں بھی اس پر کسی اعتراض کاکوئی امکان نہ ہوگا اور یہ معاملہ بخیر و خوبی سے نبیڑ لیا جائے گا کیونکہ قائمہ کمیٹیاں غیر تھوڑی ہیں سب ایک ہی ”تالاب“ کا حصہ ہیں۔ اس سے قبل وسط دسمبر 2024میں پنجاب اسمبلی نے اپنے اراکین کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024منظور کیا تھا جس کے بعد ایک رکن اسمبلی کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر 4لاکھ اور وزراء کی تنخواہیں ایک لاکھ سے بڑھا کر 9لاکھ 60ہزار جب کہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھا کر 7لاکھ 75ہزار روپے کی گئی تھی، پارلیمانی سیکرٹری کی 83ہزار روپے بڑھاکر 4لاکھ 51جبکہ وزیر اعلیٰ کے مشیران کی تنخواہیں ایک لاکھ سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھاکر 6لاکھ 65ہزار روپے کی گئی تھی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس صاحبان کی تنخواہوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا جن کے بقول سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں اور چیف جسٹس صاحبان کی تنخواہیں 25 سے 28 لاکھ روپے ماہانہ تک بڑھ چکی ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے ارکان پر بجلی، گیس کے بلوں، پارلیمنٹ لاجز کے کرایہ اور مہمانوں کی آؤ بھگت سمیت مالی اخراجات کا بہت زیادہ بوجھ ہے جس سے عہدہ برا ہونے کیلئے وہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافے کے متقاضی تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے 67 ارکان کی جانب سے تنخواہوں میں اضافہ کا تحریری مطالبہ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب حکومت یہ کہہ کرمختلف محکمے اور ادارے بند کر رہی ہے کہ اس کے پاس تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی تک کیلئے سرمایہ نہیں، تو پھر ان حالات میں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کیلئے حکومت ماہانہ بنیادوں پر یہ پیسہ کہاں سے لائے گی؟ دوسری جانب عدالت عظمیٰ کے ججز کے درمیان عدالتی امور کے سلسلہ میں تنازع اور رائے زنی تشویش ناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ نظام عدل اور عدلیہ کسی بھی خود مختار اور مستحکم ملک و معاشرے میں عوام کی آخری امید ہی نہیں بلکہ ریاست، جمہوریت اور نظام کی مستحکم فصیل ہوتی ہے۔ چرچل کا جملہ آفاقی حقیقت کے طور پر مشہور ہے کہ جس ملک میں عدالتیں انصاف کر رہی ہوں،اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اس کا منطقی مطلب یہ ہوا کہ جہاں انصاف نہیں ہو گا، اس ملک و معاشرے کو کسی دشمن کا ضرورت نہیں۔ پاکستان کی عدلیہ باوجود مقدمات کے فیصلوں میں لامتنا ہی تاخیر اور رکاوٹوں کے عوام کی امید ہے۔ ایسے میں جب معزز عدالت کے محترم جج صاحبان ہی ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات کا شکار ہوں گے تو انصاف کی امید رکھنے والے عوام کے جذبات اور امیدوں کا کیا بنے گا؟۔ بینچ بنانے کا اختیار ہو یا ججمنٹ اور انتظامی امور کے درمیان کوئی ابہام سامنے آئے تو ہم پوری قوم کی طرح یہ توقع رکھتے ہیں قانون و انصاف کو سمجھنے والے دماغ جن سے آئین کی تشریح کیلئے رجوع کیا جاتا ہے، وہ بند کمرے میں بیٹھ کر دلائل کی روشنی میں مسئلہ حل کریں اور جو بھی آئین پاکستان کی منشا اور مقصد کے قریب حل ہے اسے اختیار کر لیا جائے۔ مختلف مواقع پر معزز جج صاحبان عالمی رینکنگ میں عدلیہ کے بہت نیچے چلے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں، انصاف میں تاخیر اور مقدمات کی تیز تر سماعت کے ذریعے عدالتی وقار میں اضافے کی تجاویز اور کوششیں بھی قریباً تمام جج صاحبان کی جانب سے سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن اس طرح کی صورتحال ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے،اس سے ہر ممکن حد تک احتراز لازم ہے۔

تازہ ترین