• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی لڑائی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس لڑائی میں ایک ایسی سیاست بھی ہو رہی ہے جس نے عدلیہ کا بہت نقصان کیا اور جو اس ادارے کی بچی کھچی ساکھ تھی اُس کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ اسی سیاست ، عدلیہ کی اندر کی لڑائیوں اور آزاد عدلیہ کے دور میں ججوں کے متنازع سیاسی فیصلوں ،جس میں جج اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوںمیں کھیل کر خوش ہوتے رہے اور اس کھیل میں ملک اور سسٹم کا نقصان کیا، بغیر میرٹ کے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر اپنی مرضی کے جج اعلیٰ عدلیہ میں تعینات کیے، نہ کسی اصول کو دیکھا نہ کسی کی اہلیت اور شہرت کو اہمیت دی۔ اعلیٰ عدلیہ کے اندر کا اپنا نظام بھی ادارے کا اپنا محاسبہ کرنے میں مکمل ناکام رہا۔ تما م تر اختیارات اورآئین و قانون میں دی گئی آزادی اور اختیار کے باوجود عدلیہ نے اپنی اصل ذمہ داری یعنی عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے کی طرف توجہ نہ دے کر دوسروں کو موقع دیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیوں کے اُس سسٹم کو بدل دیں جس میں پہلے سارا اختیار صرف اور صرف عدلیہ اور ججوں کے پاس تھا۔ججوں کی سیاست اور آپس کی لڑائیوں نے آئین کی متنازع 26ویں ترمیم کا رستہ کھولا جسے ججوں کے ایک طبقہ نے آزاد عدلیہ پر حملے کے طور پر دیکھا۔ وکلاء اور سیاسی جماعتوں میں سے اس آئینی ترمیم کے خلاف کچھ آوازیں بھی اُٹھیں لیکن عوامی سطح پر نہ کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی ریلی نکلی۔کچھ سیاسی جماعتوں اور وکلاء کے ایک طبقہ نے کوشش کی کہ لوگ نکلیں، کچھ جج بھی ایسے اقدام کرتےرہے کہ ماضی کی طرح آزاد عدلیہ کی کوئی تحریک شروع ہو جائے لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ججوں کی آپس کی لڑائیاں مزید کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج آج بھی ایک دوسرے کے سامنے ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججوں کی طرف سے ایک خط بھی سامنے آ گیا جس میں اُن کا مطالبہ ہے کہ اسلام آباد کا نیا چیف جسٹس کسی دوسری ہائی کورٹ کا جج نہ بن پائے بلکہ اُن ہی میں کسی کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ اسی دوران صدر پاکستان نے مختلف ہائی کورٹس کے تین ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کر دیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ سات ججوں نے جو خط چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کو لکھا اُس کے برعکس ہی صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے۔ ججوں کو جو بات سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر انتظامیہ بشمول اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آزاد عدلیہ کو کمپرومائز کیا جا رہا ہے تو کیا جب آزاد عدلیہ تھی تو اُس وقت جج کمپرومائزڈ نہیں تھے۔ اگر تھے تو پھر حقیقت میں کیا بدلا۔ جج آپس میں اُس وقت بھی لڑ رہے تھے اور سیاست کررہے تھے اور 26ویں ترمیم کے بعد بھی یہی صورتحال ہے۔ جب ہماری عدلیہ آئین کے تحت مکمل آزاد تھی وہ اگر اُس وقت بھی دنیا میں آخر ی نمبروں پر تھی تو پھراب کیا مزید ابتری ہو گی۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوںکہ اگر پاکستان کی عدلیہ کو اپنی ساکھ میں بہتری لانی ہے تو اس کیلئے سب سے پہلے عوام کو جلد اور سستا انصاف دینا ہو گا۔ کوئی جج جتنی بھی اچھی باتیں کرے اس کا کچھ اثر اُس وقت تک نہیں ہو گا جب تک عوام کو یہ احساس نہ ہو کہ اگر ہم سے کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو ہمیں عدالتوں سے انصاف ملے گا۔ یہ انصاف پاکستان میں نہ پہلے ملتا تھا نہ اب مل رہا ہے۔ عوام عدالتوں سے انصاف لینے کیلئے ہر روز لاکھوں کی تعداد میں کورٹ کچہریوں میں رُل رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو اپنی اصل اور بنیادی ذمہ داری یعنی ایک عام فرد کو جلد اور سستا انصاف دینے کے خواب کی تعبیر کیلئے دن رات کام کرنا چاہیے۔ جب عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہو گا، جب پاکستان کی عدلیہ جلد اور سستا انصاف ایک عام پاکستانی کو فراہم کرنا شروع کر دے گی، جب برسوں ،دہائیوں سے لاکھوں زیر التوامقدمات کا فیصلہ ہو گا تو پھر عوام بھی عدلیہ اور ججوں کیساتھ کھڑے نظر آئینگے۔ ماضی میں آزاد عدلیہ کی لڑائی عوام نے لڑی اور جیتی بھی لیکن اُس لڑائی کے نتیجے میں انصاف مزید مہنگا ہو گیا، جلد اورسستا انصاف ایک خواب ہی رہا جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج سیاستدانوں سے زیادہ سیاسی ہو گئے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بھی خوب استعمال ہوئے اور یوں ججوں اور عدلیہ نے سب سے پہلے آزاد عدلیہ پر حملے کیا اور دوسروں کیلئے عدلیہ پر حملے کرنے کیلئے جواز پیدا کیے۔

تازہ ترین