ایک عالم فاضل مجھے بچپن اور بڑھاپے کے مابین موازنے کا حیران کن فلسفہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس طرح کی مخفی، غیبی اور بعید الفہم باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ جس قدر اور جتنی پوشیدہ بات ہوگی، مجھے اچھی لگتی ہے۔ ابھی سے نہیں، بلکہ بچپن سے حیران کن باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ حیران کن باتیں سن کر مجھے اپنے وجود میں سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ڈر اور خوف پیدا ہونے لگتا ہے۔ مثلاً مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ تشریح میں محض اتنا کہہ دینا کہ سورج غروب ہو جانے کے بعد اندھیرا ہوتا ہے کافی نہیں ہے۔ اندھیرا بے انتہا پراسرار ہوتا ہے۔ آپ، اپنے آپ تک کو نہیں دیکھ سکتے۔ صرف آپ اپنے آپ کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اپنے آپ کے علاوہ آپ غیر مانوس عناصر کی موجودگی اپنے آس پاس محسوس کرسکتے ہیں۔ مگر آپ ان کو چھو نہیں سکتے۔ آپ ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ میرا وہم ہے، گمان ہے؟ یا میرے احساس کی کوئی حقیقت ہے؟ میں جاننا چاہتا ہوں۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں۔ میں حقیقت سے پردہ اٹھتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ گھپ اندھیروں میں ہم تنہا نہیں ہوتے۔ ایک سے زیادہ پُراسرار عناصر ہمارے آس پاس ہوتے ہیں۔ مگر ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے، ان کو چھو نہیں سکتے۔ ہم ان کو صرف محسوس کرسکتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں اور سنانے والے سناتے ہیں کہ اچھی بُری عادتوں کی لت ہمیں بچپن میں پڑ جاتی ہے یا لگ جاتی ہے۔ سنسنی خیز کہانیاں سن کر میں بے انتہا متاثر ہوتا تھا۔ ڈر کے ساتھ ساتھ میں اپنے وجود میں تھرتھری محسوس کرتا تھا۔ میں تصوراتی طور پر سنی ہوئی کہانی میں الجھنا چاہتا تھا اور پھر الجھ جاتا تھا۔ میں کہانی کے بارے میں مزید جاننا اور سمجھنا چاہتا تھا۔ اسلئے میں عالموں اور فاضلوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ عالموں اور فاضلوں کا اکثر انحصار قصوں اور کہانیوں پر ہوتا ہے۔ وہ آپ کو ڈراتے ہیں، آپ کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی دنیا بھرمیں عالمِ حیرت سے بھرپور افسانے، ناول، قصے اور کہانیاں پسند کئے جاتے ہیں اور خوب بکتے ہیں۔ یہاں پر ایک بات بتاتا ضروری سمجھتا ہوں ۔ پُراسرار قصے کہانیاں سنتے سنتے ہمارے وجود میں بلکہ ہمارے ذہن میں عجیب قسم کی جستجو، عجیب قسم کا تجسس پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہمارے وجود میں سوالوں کا جنگل کھڑا ہو جاتا ہے ۔ ہم ذیلی سوالوں میں گھر جاتے ہیں۔ ہم سنی سنائی بات پر اکتفا کرنے کی بجائے کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ مزید کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے عالم فاضل سے پوچھا:سر، آپ نے بجا فرمایا ہے کہ جس طرح بچپن میں چلنے پھرنے کے لئے سہاروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بغیر لاٹھی کے، چھڑی کے ہم چل پھر نہیں سکتے۔ اگر چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو گر پڑتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی ، کمر، اور ہپ بون Hipboneکو لہے کی ہڈی تڑوا بیٹھتے ہیں۔ ہم پاکستانی بوڑھے تماشا ہیں اور ہم خود ہی تماشائی بن جاتے ہیں۔ اپنا تماشہ ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔عالم فاضل نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔ اگر اتنے پہنچے ہوئے ہو، اور سب کچھ جانتے ہو تو پھر میرا وقت کیوں برباد کرتے ہو؟میں نے عرض کیا :سر میں آپ سے کچھ جاننا اور سیکھنا چاہتا ہوں۔عالم فاضل نے کہا: پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو۔میں نےگزارش کرتے ہوئے کہا:سر، بچپن میں ہم سہاروں کی مدد سے چلنا پھرنا سیکھتے تھے۔ آہستہ آہستہ سہاروں سے پیچھا چھڑا لیتے تھے۔ اپنے بل بوتے پر چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا سیکھ لیتے تھے۔ مگر بڑھاپے میں ایسا نہیں ہوتا۔ سب کچھ الٹ جاتا ہے۔ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، دشوار ہوتا جاتا ہے۔ اچانک گر پڑتے ہیں۔ ہڈی پسلی تڑوا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سائیکل مکمل تو نہیں ہوا نا؟
عالم فاضل مسکرائے ۔ کہا :گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔کہاوت مجھے اچھی نہیں لگی۔ میں نے کہا :سر میں گھوڑے پر سوار نہیں ہوں اور دوسرے یہ کہ یہ میدانِ جنگ بھی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی میں گر پڑتا ہوں۔ چھ مرتبہ گر چکا ہوں۔ماشاء اللہ ۔ عالم فاضل نے کہا:شکر کرو کہ چھ مرتبہ گر جانے کے باوجود تمہاری ہڈی پسلی ثابت اور سلامت ہیں۔ کیا اتنا علم تمہارے لئے کافی نہیں ہے کہ بچپن میں تم سہاروں کے بغیر چل پھر نہیں سکتے تھے۔ بڑھاپے میں بھی تمہیں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے لئے کسی کے سہارے کی ضرورت ہے۔ بڑھاپا ہمیں بچپن کے سنگ کر دیتا ہے۔ ہم پھر سے بچے بن جاتے ہیں۔بات چیت کے دوران چپ چاپ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے عالم فاضل سے پوچھا: سر، بچے میں شعور کے روشندان جب کھلتے ہیں تب وہ اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ عمر کے الوداعی ایام میں آدمی کے پاس شعور میں محفوظ یادوں کے انبار ہوتے ہیں۔ مرنے کے بعد شعور میں محفوظ یادوں کا کیا بنتا ہے؟