• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے، یہاں نا انصافی ہے۔ معیشت اور سیاست سے پہلے سماج کی بات کرتے ہیں، معاشرے میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، ان تین وجوہات کی بنیاد پر خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، انہی وجوہات کے باعث جرائم بھی بڑھ رہے ہیں، لوگوں میں عدم برداشت بھی بڑھ رہی ہے، طرح طرح کے سماجی مسائل نفسیاتی مریضوں میں اضافہ کر رہے ہیں، سماج کی اس نا ہمواری پر حضرت علیؓ کا ایک فرمان یاد آتا ہے کہ " جس معاشرے میں کوئی فرد بھوکا سو گیا، اس کا مطلب ہے اس کے حصے کا رزق کوئی اور کھا گیا"۔ اگر اس فرمان کی روشنی میں دیکھا جائے تو میرے پیارے وطن میں کتنے افراد بھوکے سوتے ہیں اور کتنے بچے ایسے ہیں جو کوڑے کے ڈھیروں سے کھانے کی چیزیں تلاش کرتے ہیں، ان ننھے فرشتوں کے رخساروں پہ جمی گرد بے بسی کا رونا روتی ہے، غربت کے ڈھیروں سے بھوک کا خاتمہ نہیں ہوتا، سو اس سماجی ناہمواری کے باعث پتہ نہیں کتنے افراد کا رزق کون لوگ کھا جاتے ہیں؟ سماجی سطح پر نا انصافی، غربت ختم نہیں کرتی، افلاس میں اضافہ کرتی ہے، ہمارا سماج بچوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پاتا، اپنے معاشرے کے بچوں پر نظر کیجئے، غور تو کریں کتنے بچے مہنگے اسکولوں میں جاتے ہیں، کتنے ایسے ہیں جو سستے اسکولوں کا رخ کرتے ہیں اور بچوں کی بڑی تعداد تو ابھی بھی غربت کی بستیوں سے اسکولوں کا رخ نہیں کر پاتی۔ کبھی غور کریں، کتنے بچوں کو اسکول لے جانے کے لئے مہنگی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور کتنے وہ ہیں جنہیں سائیکل بھی نصیب نہیں ، تعلیمی مسافت میں یہ تفاوت کتنے بڑے انسانی المیے کو جنم دیتا ہے، اس کا اندازہ شاید ہمارے حکمرانوں کو نہیں، یہی صورتحال صحت کے شعبے میں ہے۔ ملکی معاشی صورتحال کی ابتری کی بڑی وجہ معاشرے میں معاشی نا انصافیاں ہیں، ایک وہ ہیں جو سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں، بڑے بڑے کمیشن کھاتے ہیں، حرام خوری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، چند سرکاری ملازمین وہ ہیں جن کی جائیدادیں ان کی تنخواہوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، تنخواہ دار طبقے کے اکثریتی افراد تنخواہوں پہ گزر بسر کرتے ہیں مگر یہاں ایک سوال اہم ہے کہ معاشرے میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو بے روزگاری کی بپھری ہوئی لہروں کے سپرد ہو چکے ہیں، یہ لوگ ان لہروں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی سمندر میں ان کی کشتی الٹ جاتی ہے اور یہ موت کی لہروں کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ کسی کے کتوں کے لئے بیرون ملک سے خوراک آتی ہے اور بہت سے گھروں میں چولہا نہیں جلتا، مائیں بچوں کو بھوک کی لوریاں دے کر سلاتی ہیں، ہمارے معاشرے میں نہ ٹیکسوں کا نظام درست ہے، نہ زکوٰۃ اور عشر کا نظام۔ تنخواہ دار طبقہ تو ٹیکس دیتا ہے مگر بڑے مگر مچھ بجلی اور گیس کے علاوہ ٹیکس بھی چوری کرتے ہیں، ہمارے سماج میں زکوٰۃ اور عشر کا نظام اس حد تک خراب ہے کہ زکوٰۃ مستحقین تک پہنچ ہی نہیں پاتی، اگر زکوٰۃ ہی لوگوں تک پہنچ جاتی تو معاشرے میں مختلف بستیوں کی گلیوں میں غربت کا بسیرا نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی نا انصافی بھی ہے، ایک طویل عرصے سے سیاست پر مختلف خاندانوں کی اجارہ داریاں شدو مد سے قائم ہیں، اگر کسی نے اس سیاسی حصار کو توڑنے کی کوشش کی تو طاقتور قوتوں نے اسے کچلنے کی ٹھان لی، بڑی بدقسمتی تو یہ ہے کہ لوگ ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں، جتوا کسی اور کو دیا جاتا ہے، یہاں صرف ایک فون سیاسی نتائج کو بدل کے رکھ دیتا ہے، حالیہ دنوں میں چند ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ حکمران طبقے کی اشیرباد سے پولیس، کس طرح نہتے اور غریب لوگوں پر تشدد کرتی ہے یعنی طاقت کے زور پر عزت کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ " بدقسمت ہے وہ شخص جس کی عزت اس کے خوف کی وجہ سے کی جائے"۔ مذکورہ بالا تمام مسائل کی جڑ صرف اور صرف نا انصافی ہے، لوگ انصاف کے لئے عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں، کئی مجبور اور بے بس دور دراز سے صبح سویرے عدالت پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے جج صاحب چھٹی پر ہیں، اگر یہاں انصاف ہوتا، اگر یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو یہاں یہ مسائل نہ ہوتے بلکہ حالات کا آئینہ کچھ اور بیان کر رہا ہوتا۔ حکمرانوں کے وعدے دیکھتا ہوں تو رحمان فارس کا شعر یاد آتا ہے کہ

عہد وفا سے کس لئے خائف ہو میری جان

کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

تازہ ترین