• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق اولوف اسکوگ کا حالیہ دورہ پاکستان ایسے وقت میں عمل میں آیا جب حکومت کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ یورپی یونین کے نمائندے نے اپنے دورے میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت کئی اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتوں میں پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اپنے دورے میں انہوں نے سول سوسائٹی کے نمائندوں، پنجاب کے وزیر برائے اقلیتی امور اور اقلیتی برادری کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں جس میں مذہب اور عقیدے کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ جیسے امور زیر بحث آئے۔ یورپی یونین نمائندے نے ان ملاقاتوں میں توہین مذہب قوانین، خواتین کے حقوق، جبری شادیاں، جبری تبدیلی مذہب، جبری گمشدگیاں، آزادی اظہار، مذہبی آزادی، میڈیا کی خود مختاری، انسانی حقوق، منصفانہ اور شفاف عدالتی کارروائی کا حق، شہری آزادی اور سزائے موت جیسے قوانین پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ 2014ء میں یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کی تجارتی حیثیت دی تھی جس میں مزید توسیع کردی گئی تھی۔ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستان، یورپی یونین کو اپنی مصنوعات بغیر کسٹم ڈیوٹی ایکسپورٹ کرسکتا ہے۔ اس طرح پاکستان کو اپنے مقابلاتی حریفوں بھارت، ترکی، ویت نام اور چین پر ڈیوٹی فری سبقت حاصل ہے۔ EU کی اس سہولت سے پاکستان کو ٹیرف کی مد میں ایک ارب ڈالر کی چھوٹ ملتی ہے۔ پاکستان کے کاروباری اداروں نے 2014ء میں تجارتی اسکیم کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین کی مارکیٹ میں اپنی برآمدات میں 108فیصد اضافہ کیا ہے جس سے یورپی یونین، پاکستان کی سب سے بڑی منڈی بن گیا ہے اور پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ 6.8ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے جو پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ کا 22فیصد بنتا ہے جبکہ امپورٹ 5.3 ارب ڈالر ہے۔ جی ایس پی پلس سہولت کے حصول کیلئے پاکستان نے 27عالمی معاہدوں بالخصوص 16انسانی حقوق کے قوانین پر عملدرآمد کرنے کیلئے دستخط کئے تھے جس میں توہین مذہب قوانین، خواتین کے حقوق، جبری شادیاں، جبری تبدیلی مذہب، جبری گمشدگیاں، آزادی اظہار، مذہبی آزادی، میڈیا کی خود مختاری، انسانی حقوق، منصفانہ اور شفاف عدالتی کارروائی کا حق، شہری آزادی اور سزائے موت کے خاتمے جیسی شقیں شامل تھیں۔ جی ایس پی پلس سہولت مقابلاتی حریف بھارت کی آنکھوں میں شروع دن سے کھٹک رہا ہے اور وہ پاکستان میں اقلیتی، مذہبی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دی جانیوالی پھانسیوں کو بنیاد بناکر یورپی یونین سے پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس سہولت واپس لینے کی درخواست کرچکا ہے جسے یورپی یونین مسترد کرچکی ہے اور بھارت اپنے مذموم مقاصد میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے مگر بھارت اب بھی سازشوں میں مصروف ہے۔ افسوس کہ اس ملک دشمن پروپیگنڈے میں پی ٹی آئی بھی بھارت کی آلہ کار بن گئی ہے اور سانحہ 9 مئی کے 85 مجرمان کو دی جانے والی سزائوں اور حال ہی میں منظور کئے جانے والے پیکا قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قرار دے رہی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی قیادت یورپ اور امریکہ میں جی ایس پی پلس سہولت کے خلاف لابنگ کررہی ہے تاکہ یہ سہولت پاکستان سے واپس لے لی جائے۔ پی ٹی آئی اس سے قبل یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجنے اور آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض نہ دینے کی مہم چلاتی رہی ہے جو پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے درپے ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان کی معیشت میں بہتری کے اثرات آئے ہیں تاہم پاکستان ابھی تک آئی ایم ایف کی بے ساکھیوں پر کھڑا ہے اور جی ایس پی پلس سہولت کے بغیر معیشت کو سنگین چیلنجز لاحق ہوسکتے ہیں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ عالمی امداد اور مراعات کو بین الاقوامی تعلقات میں ممالک پر دبائو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گوکہ جی ایس پی پلس سہولت کی مدت ختم ہونے میں تقریباً 3سال باقی ہیں اور جون میں یورپی یونین، پاکستان کی جی ایس پی پلس سہولت برقرار رکھنے کا فیصلہ کریگی مگر یورپی یونین نمائندے کے حالیہ دورہ پاکستان کی ٹائمنگ اور یورپی یونین کی جانب سے جاری بیان میں یورپی یونین کی انسانی حقوق جیسی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانے کا مطالبہ پاکستان پر دبائو اور دھمکی کے مترادف ہے جسے حکومت کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔

تازہ ترین