میرے بچے میرے پاس
تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں
دیکھو خوبصورت چاندنی پھیلی ہوئی ہے
اسے پی لو ، تمہیں نیند آجائے گی
میری بات سن کر تم ہنس پڑے
کاش میرے اندر اتنی جان ہوتی
کہ اپنی بوٹی توڑ کر
تمہیں کھلا سکتی
باہر کا سناٹا
یا پھر گولیوں کی آواز
بس اب تو دن کی دھوپ
اور رات کو چاندنی
ہماری خوراک ہے
اب تو ہمارے گھر میں
مکھیاں بھی نہیں
ہمیں غلام بنانے والوں کو وہم ہے
کہ وہ ہماری آزادی چھین سکیں گے
ان کی بندوقوں کےنصیب میں
ہمارے جوانوں کا خون نہیں ہے
ساری دنیا جان لے
یہ حبہ خاتون کی زمین ہے!
دنیا کے سارے میڈیا سارے سیاستدان
غاصبوں کو کچھ نہیں کہہ رہے
صرف امن کے ہینڈ آئوٹ نکال رہے ہیں
جب بھی پانچ فروری آتی ہے ہمارا میڈیا دنیا بھر کے میڈیا کو یاد کراتا ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر کو بطور اپنا حصہ قانون کے ذریعہ اعلان کرنے کے باوجود ، ہمارے کشمیری جوانوں کے سامنے پورے چار سال کوششیں کیں کہ کشمیر میں نان کشمیریوں اور پنڈتوں کو ایسے داخل کریں کہ اعداد و شمار میں یہ لوگ کشمیریوں سے زیادہ نظر آئیں مگر زمین اور خون کہتا ہے کہ میری سرزمین چاہے وہ فلسطین کی ہو کہ کشمیر کی ۔ ماؤں کی گود کے بچے ، نانیوں سے سنی لوریاں یاد رکھتے ہیں اور کتنا ہی دبانے کی کوشش کرو، دیکھتے ہو کہ غزہ میں سارے شہر، کھیت ،سارے باغ اجاڑدئیے مگر حوصلہ مند فلسطینی اور کشمیریوں نے اپنی زمین سے وفاداری کو مشکوک نہیں کیا ۔ اب انڈیا نے کوشش کی ہے کہ ٹرین سے لیکر ساری سڑکیں ایسے دراز کی جائیں کہ پاکستان سمیت آنے والے راستے بالکل بند ہوجائیں مگر پوچھ لیں جموں کے لوگوں سے کہ ان کے گھر لاہور اور جموں کی حدود میں پائے جاتے ہیں ۔ سب لوگ کلچے اور گشتابہ روز کھانے کو مانگتے ہیں، پشمینہ کی چادریں اور وازوان کے بنے کھانے ، ان کی شناخت ہیں ۔ بہت کوشش کی گئی کہ زعفران کسی اور زمین پر وہ خوشبو دے جو چاندنی راتوں میں وہ پھول جن کو کشمیری بزرگ و خواتین ، اپنی پوروں سے نکالتی اور ایران کی طرح یہاں کی زعفران اپنی الگ شناخت نہ رکھے ،ہونہیں سکا ۔ انڈیا نے سارے قانون آزمانے کے بعد تازہ انتخابات میں ،نتیجہ کیا دیکھا کہ پھر حبہ خاتون کی روح نے سرزمین فلسطین کی طرح کشمیر کی آبرو کو سنبھال لیا ۔ اس وقت انڈیا نے کشمیر میں بھی بین الاقوامی کانفرنس کرنے کا ڈرامہ کیا ،لیکن زمین نے نقشہ نہیں بدلا ، اب تو خواتین نے بھی گھروں کے باہر کشمیری کھانوں کے اسٹال بنا لئے ہیں ۔ مردوں کے سردیوں کے لمبے کرتے اور ٹوپیاں ساری دنیا میں مقبول ہیں ۔ اسی طرح لداخ بھی اپنی شناخت کے ساتھ قائم ہے ۔ چناروں کے دیس میں جسٹس کاٹجو کبھی کبھی سچ بتاتے تھے کہ کشمیر کے سیبوں کی خوشبو، ادھر لاہور اور اُدھر دلی کے بازاروں میں ، بچوں کو بھی پہچان کراتی ہے اوروہ مکھانے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ راجہ کرن سنگھ نے دلی میں رہنے کے باوجود ،جموں میں اپنا دیوان،دوستوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے کھلا رکھا ہے اورجب ان سے بات کرو تو وہ فیض کے اشعار دہراتے نظر آتے ہیں ۔
مودی 12؍فروری سے امریکہ کا دورہ کرنے جارہے ہیں ظاہر ہے ان کا استقبال کشمیری کالے جھنڈوں کے ساتھ کریں گے مگر اب تو دنیا کہہ رہی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کرنےکیلئےجس طرح عالمی طاقتیں دباؤ ڈال رہی ہیں ۔ اسی طرح اگر کچھ زیادہ نہیں ، کم از کم دونوں ملکوں میں کشمیریوں کے آپس میں میل جول کیلئے سرحدیں آزاد کی جائیں اور دونوں ملکوں میں پاکستانی اور انڈین فوجیں واپس بھیج دی جائیں تو امن ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایک زمانے تک تو پاکستانی کشمیر کا کنٹرول ایک جوائنٹ سیکریٹری چلاتا تھا ۔ پھر سردار قیوم کی مسلسل کوششوں سے کشمیر میں الیکشن کرائے گئے اور اب باقاعدہ صوبائی کابینہ کام کررہی ہے ۔ ہرچند انڈیا کے مقبوضہ علاقوں میں بھی الیکشن تو تسلیم کئے جاتے ہیں مگر وہ آزادی جو دونوں جانب کے کشمیری چاہتے ہیں وہ دونوں ملکوں کی حکومتیں تسلیم نہیں کرتیں ۔اس پر مستزاد یہ کہ نفرتوں کو ہوا دینے سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ میں نے کشمیر کے کرفیو پر نظم سے اپنے کالم کا آغاز اس لئے کیا کہ دونوں طرف کشمیر میں امن کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ جوان ہوتے کشمیری بچوں کے ہاتھ میں پستول نہیں کتاب ہو ، یہی سبق پڑھاتے پڑھاتے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کوسیاحت کو فروغ دینے کا درس سب دانشور دیتے رہے ہیں ۔ اسی سبق کو دہراتے ہوئے یہ کالم شاید حالات تبدیل کردے ۔