غور کریں تو نظر آئے گا کہ پی ٹی آئی کی سیاست عجائبات پر مبنی ہے۔ نہ کوئی بانی کی نظر میں قابل اعتبار ہے نہ ہی خود مختار ۔ پی ٹی آئی اب بحیثیت جماعت نہیں رہی بلکہ یہ مختلف گروپوںپر مشتمل ایک یونین کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت یہ جماعت کم از کم سات آٹھ گروپس میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر گروپ دوسرے کا شدید مخالف ہے کیونکہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کئی لوگ اس جماعت کو چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے میں سمجھ نہیں آرہی کہ اس منتشر اور مختلف الخیال گروپس پر مبنی جماعت کے ساتھ الائنس کا کون سوچ سکتاہے۔
پی ٹی آئی کے جو لوگ گرینڈ الائنس بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں وہ کتنے بااختیار ہیں۔ کیا معلوم کل وہ خود بھی ان عہدوں پر برقرار رہیں یا نہ رہیں ۔ اس کے علاوہ کل ان کے فیصلوں کو بانی پی ٹی آئی کی پذیرائی اور منظوری کس حد تک ملتی ہے اس کا بھی یقین سے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ گرینڈ الائنس برائے احتجاجی تحریک کا کونسا گروپ کتنا ساتھ دیتا ہے یہ بھی معلوم نہیں ہے۔ مجوزہ گرینڈ الائنس میں اصل اور قابل ذکر جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) ہےجس کا طرز سیاست مدبرانہ سوچ کا حامل ہے وہ توڑ پھوڑ اور بداخلاقی کے سخت خلاف ایک منظم جماعت ہے۔ اس تمام صورتحال اور متضاد سوچ کی حامل جے یو آئی کس طرح پی ٹی آئی کی گاڑی میں سوار ہو گی یہ فہم سے بالا ہے۔
مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی سے پہلے یہ ساری کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ اگر اس سب کچھ کے باوجود مولانا پی ٹی آئی کی گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں تو یہ بھی اچنبھے کی بات ہو گی۔
بانی پی ٹی آئی چونکہ نہ سیاسی سوچ کے حامل ہیں نہ ان کو سیاست کے نشیب و فراز سے کوئی خاص واقفیت ہے اس لئے پی ٹی آئی کے مختلف گروپس کےمتضاد خیالات کے لوگ ان کو مختلف مشورے دیتے ہیں جو دراصل ان لوگوں کے اپنے مفادات پر مشتمل ہوتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی جو ہر طرف سے مایوس ہو کر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں وقتی طور پر ان مشوروں پر عمل کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں اور یقینی طور پر ایسے مشورے پر عمل کرنے کا انجام ناکامی و سبکی پر ہی منتج ہوتا ہے۔ بانی کا ایک طرح سے یہ عالم نظر آتا ہے۔
جو ابھی آتا ہے بتاتا ہے کوئی نیا علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحائوں میں
جس کے مشورے پر جنید اکبر کو پی ٹی آئی کے پی کا نیا صدر بنایا ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ وہ خود بھی سمجھ گئے کہ یہ ذمہ داری ان کے قد سے اونچی ہے اس لئے وہ ایسی باتیں کرنے لگے ہیں کہ بانی ان سے جتنا جلد ممکن ہو یہ ذمہ داری واپس لے لیں۔ ذرائع کے مطابق صوبے میں صوابی جلسے میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
جلسے کے اخراجات کیلئے بھی صوبائی اور مقامی رہنماؤں کی طرف سےحصہ ڈالنے کا معاملہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس وقت جلسہ اخراجات کیلئے 8کروڑ روپے کی شدید ضرورت ہے لیکن حصہ ڈالنے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پارٹی فنڈ کے نام پر گزشتہ چند ماہ کے دوران گیارہ کروڑروپے کے لگ بھگ اکٹھے کئے گئے جو کسی اور کی جیب میں چلے گئے اس میں کتنی صداقت ہے یہ ہم نہیں جانتے لیکن اسی طرح بہت ساری باتیں زبان زد عام ہیں۔
بہرحال کل تک جنید اکبر کہتے رہے کہ صوبے میں پارٹی معاملات اب انکی ذمہ داری ہیں اور علی امین گنڈاپور گورننس کو دیکھیں گے لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ صرف صوبائی صدارت کا طمطراق نہیں ہوتا اس کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے انہوں نےعلی امین کے ساتھ اپنے اختلافات کا بھی ذکر کیا تھا۔ لیکن جلسہ کیلئے درکار مذکورہ رقم اور جلسےکی ناکامی بھانپتے ہوئے انہوں نے پارٹی کے چند لوگوں کو جو علی امین کے قریبی سمجھتے جاتے ہیں بیچ میں ڈال کر صوبائی وزیراعلیٰ سے مدد طلب کر لی ہے جس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ وہ ’’انتظامی طور‘‘ پر مدد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن وزیراعلی گنڈا پور کو اس بارے میں بیورو کریسی کی سخت مزاحمت کا پہلے ہی سامنا ہے کیونکہ انہوں نے بانی کی خوشنودی کیلئے گڈ گورننس کے نام پر بیورو کریسی پر سختی شروع کر دی ہے بلکہ کرپشن کے انسداد کیلئےایک صوبائی ادارہ قائم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
9 مئی اور 26نومبر کو ڈی چوک جانے کے مشوروں نے پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سول نافرمانی کی تحریک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر سے منع کرنے جیسے اعلان بانی پی ٹی آئی کیلئے سبکی میں اضافے کا باعث بنے۔ پھر بیرون ملک چند بھگوڑوں اور اشتہاریوں نے بانی کو ٹرمپ کال کا آسرا دیا جوسراب ثابت ہوا۔ اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ٹرمپ کال کا دلاسہ صدا بہ صحرا ثابت ہونے سے بانی کے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوا۔ ابھی پی ٹی آئی کی بار بار کوششوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہی ہوا تھا کہ اس طرف سے غیر منطقی اور ناقابل عمل مطالبات سامنے آئے لیکن ان مطالبات پر مذاکرات کرنے سے پہلے ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو تحلیل کیا گیا پتہ نہیں یہ کس کا مشورہ تھا۔
عین اس دوران 8فروری کو احتجاج کا اعلان کیا گیا جو ملک بھر میں کرنا تھا پھر اس کو صوابی اور لاہور کے جلسوں میں تبدیل کیا گیا۔ پھر آرمی چیف کو الزامات و شکایات پر مبنی خط کا شوشا چھوڑا گیا وہاں سے جو جواب آیا وہ بانی کیلئے مزید سبکی کا باعث بنا۔ ابھی کچھ اہم فیصلے آنے ہیں جسکے بعد اکثر لوگ بانی کی کشتی سے اتر جائیں گے۔