زوال زدہ معاشروں میں سیاسی اور مذہبی تقسیم شدید اور گہری ہوتی ہے۔ ان معاشروں میں محبت اور نفرت بھی انتہاؤں کو چھوتی ہیں۔ اعتدال جاتا رہتا ہے عقل کا استعمال عنقا ہو جاتا ہے۔ محبت اور سیاست یکسر مختلف میدان ہیں لیکن ان معاشروں میں مخالف کو رقیب اور اپنے لیڈر کو محبوب سمجھا جاتا ہے۔ یوں انہیں اپنے رقیب میں دنیا کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور اپنے محبوب میں دنیا کی کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ یہ دونوں رویے بے اعتدالی، شدید جانبداری اور انتہا کی جذباتیت کے عکاس ہیں۔ 8فروری کے دن ہی کو دیکھ لیں شہباز حکومت اپنی ایک سالہ کارکردگی کی سالگرہ منا رہی ہے اخبارات کے صفحہ اول ا نکے ایک سالہ کارناموں سے بھرے پڑے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف کے دوست 8فروری کو دھاندلی انتخابات کا سوگ منا رہے ہیں۔ گویا دونوں ابھی تک ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں نہ خود ماضی سے نکل رہے ہیں نہ ملک کو ماضی سے نکلنے دے رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نہ مقتدرہ اور نہ اس وقت کی نگران حکومت 8فروری کو انتخابات کروانا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ رسک نظر آ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے تحریک انصاف دباؤ کو توڑکر انتخابات میں فتح حاصل کر لے۔ اس وقت تین اشخاص یا طبقات نے انتخابات کو یقینی بنایا سب سے زیادہ کریڈٹ تو آج کے نام نہاد ’’ولن‘‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے جو سنگ باری سہتے سہتے آج گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں مگر 8فروری کے انتخابات کے انعقاد کے سب سے بڑے ہیرو وہی تھے۔ دوسرا طبقہ پاکستان کے دوست اور خیر خواہ ممالک اور ان کے سفارت کاروں پر مشتمل تھا جس کی تمنا تھی کہ پاکستان کا جمہوریت کی طرف سفر شروع ہو، چاہے مکمل جمہوریت نہ سہی، ایک قدم ہی آگے سہی، ایک سپر پاور کے سفارتکار نے طاقتور حلقوں کو جو مشورہ دیا وہ ہم صحافیوں کو بھی بتایا اور وہ یہ تھا کہ ہم نے اپنے دوستوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ الیکشن ضرور کرواؤ جیسے بھی ہوں۔ مجیب الرحمٰن شامی جیسے بڑے نام اور میرے جیسے عاجز کی بھی یہی رائے تھی کہ الیکشن ہر صورت ہونے چاہئیں کہ اس سے حبس ختم ہوگا، جمہوریت کا نیا سفر شروع ہوگا اور نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم معاشرہ تو ابھی سقوط ڈھاکہ، سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ تک سے نہیں نکل سکا۔ 8فروری سے کیسے نکلے گا۔ جب تک ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کو سنوارنے کی سعی نہیں کی جاتی، ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا ہوا پتھر کناروں کے اندر ہی تلاطم پیدا کرکے طاقت ختم کر بیٹھتا ہے۔ آج کی کوئی بھی نصیحت اس پتھر کی طرح ہوگئی ہے جو چند لہریں پیدا کرکے پھر ابدی نیند سو جاتا ہے ٹھہرا ہوا پانی اسی طرح حال مست پر رکا رہتا ہے۔
8فروری کو دھاندلی ہوئی یا نہیں؟ دھاندلی صرف پنجاب میں ہوئی یا خیبر پختونخوا میں ہوئی؟ کتنی دھاندلی ہوئی؟ یہ سارے سوالات سب ذہنوں میں کلبلاتے ہیں مگر 8 فروری کے الیکشن سے اگر تحریک انصاف کو مرکز میں اقتدار نہیں ملا تو پختونخوا میں تو ملا، 8 فروری سے پہلے تو وہ صرف اور صرف اپوزیشن میں تھی، اب مرکز میں بھی وہ اپوزیشن کا سرکاری درجہ حاصل کر چکی ہے اس کے لیڈر آف دی اپوزیشن کو سرکاری مراعات میسر ہیں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایجنڈا انکے صلاح مشورے سے ترتیب پاتا ہے وہ موجودہ ریاستی نظام کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلے والا سلوک ہوتا ہو مگر کوئی ان کی رشتہ داری سے انکار تو نہیں کر پاتا۔ حکومت اور متقدرہ بھی ان کی اس حیثیت کو ماننے پر مجبور ہیں سیکورٹی کا کوئی معاملہ ہو تو ان کے نمائندے بھی اجلاس میں موجود ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی آئیڈیل صورتحال نہ ہو مگر پھر بھی یہ سب کچھ 8فروری کے ’’دھاندلی زدہ‘‘الیکشن سے ہی ممکن ہوا ہے گویا 8فروری کے بعد کی صورتحال 8 فروری سے پہلےکی صورتحال سے کہیں بہتر ہے۔
دوسری طرف شہباز حکومت 8فروری کو سالگرہ کے طور پر منا رہی ہے اپنی ایک سالہ کارکردگی کو آج وہ ایک جشن کے طور پرمنا رہی ہےاور درست دعوے کر رہی ہے کہ ملک کی معاشی حالت سنبھلی ہے۔ یہ مکمل ایک سال کے بعد شہباز حکومت کا پہلا سیاسی قدم ہے وگرنہ تو وہ سیاست کوبھول کر حکومتی راہداریوں کی بھول بھلیوں میں کھو چکی تھی حالانکہ اسے جو حکومت ملی ہوئی ہے اس کی وجہ صرف اور صرف سیاست ہے۔ حکومتیں تو ایک سراب ہوتی ہیںجبکہ سیاست ایک حقیقت ہے۔ عوام کو بھول کر یا بھلا کر جو بھی حکومت کی جائے اس کی بنیادیں کمزور ہی رہتی ہیں۔
8فروری سے آگے چلنےکیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ سبق یاد کریں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جمہوری گاڑی میں سوار ہیں اور دونوں اسی گاڑی کے پہیےبھی ہیں، اگر ایک پہیہ صحیح نہ چلا تو گاڑی آگے نہ چل سکے گی۔ مذاکرات ناکام ہونے کے باوجود مذاکرات کو ختم نہ کیا جائے تحریک انصاف کو جلسے جلوس کرنے کا حق حاصل ہے لیکن شہروں کو بند کرنے کااسے کوئی حق نہیں۔ حکومت آزادی رائے اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگا کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے یہ سب کچھ ان کے نامہ اعمال میں لکھا جا رہا ہے اسے آنے والے کل میں اس کا حساب دینا پڑیگا۔حال ہی میں ایک ادارے نے ایک نیا سروے کیا ہے جس میں 8فروری کے ایک سال بعد کے سیاسی رجحانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سروے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ آج بھی عمران خان بطور شخصیت سب سے پاپولر ہیں، نواز شریف دوسرے نمبر پر ہیں مگر اس سروے میں یہ حیران کن بات بھی سامنے آئی ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی سب سے پہلے نمبر پر ہے اور دوسرےنمبر پر سندھ حکومت کی کارکردگی ہے جو کم از کم 12پوائنٹ کم ہے۔ خیبر پختونخوا کا نمبر اس سے بھی پیچھے ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مقتدرہ کی پنجاب میں مداخلت سب سے کم ہے سب سے زیادہ مرکز میں اور پھر باقی صوبوں میں ہے۔ان ذرائع کے مطابق شاید اس کی وجہ پنجاب میں میرٹ اور کارکردگی کا شاندار ہونا ہے۔ پنجاب کو کابینہ سازی اور منصوبہ بندی میں مکمل فری ہینڈ فراہم ہے۔اعتراض کرنے والے یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے 80سے زائد نئے منصوبے اور اقدامات شروع کر رکھے ہیں ان سب کو نبھانا اور پورا کرنا مشکل ہو گا، جواب ملتا ہے کہ پنجاب کو اگلے سال 1100ارب کی خطیر رقم حاصل ہو گی اگر اتنا بڑا بجٹ میسر ہوگا تو پھر سو منصوبے بھی مکمل ہو سکتے ہیں۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ایک دن میں ترقی کرکے آگے نہیں آئیں انہوںنے بھی ایک ایک انچ، ایک ایک قدم آگے بڑھ کر صدیوں میں ترقی کی منزل پائی ہے۔ چھلانگیں لگانا، انقلاب کی بات کرنا یا رات بھر میں سب کچھ بدلنے کی باتیں بھلی تو لگتی ہیں لیکن یہ قابل عمل نہیں ہوتیں۔ ایک ایک قدم چل کر ہی منزل حاصل ہوگی اس لئے آج بھی ہم ایک قدم آگے نہ بڑھیں، سمت کاتعین ہی نہ کریں تو راستہ کھوٹا ہونا شروع ہو جائے گا۔ سمت طے کریں سفر کٹنا شروع ہو جائے گا۔ سمت تو جمہوریت اور فلاحی مملکت کی واضح ہے ایک قدم ہی چل لیں امید بر آئے گی۔