• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ خلاصہ یہ تھا کہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد اسرائیل غزہ کی پٹی امریکہ کو سونپ دیگا۔ فلسطینی مصر اور اردن چلے جائیں گے۔سمجھ اس بات کی نہیں آئی کہ غزہ کی جس پٹی میں اسرائیل سوا سال اپنے یرغمالی نہیں چھڑا سکا، وہ یہ علاقہ امریکہ کو کیسے سونپ دیگا۔ ٹرمپ نے ارشاد کیا کہ علاقے میں ترقی ہوگی، مقامی آبادی کو نوکریاں ملیں گی۔مقامی آبادی تو ہو گی ہی مصر اور اردن میں، اسے نوکریاں کیسے ملیں گی؟پھرفرمایا کہ اس سارے عمل میں امریکہ کا ایک ڈالر بھی خرچ نہیں ہوگا۔ ہینگ لگے گی نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے گا۔ٹرمپ ایک ایسا تاجر ہے، جسکے پاس اب فوج کی طاقت آگئی ہے۔ بدمعاشی سے وہ خطے ہتھیانا چاہتا ہے۔ اس ساری پریس کانفرنس میں جملے سے جملہ نہیں مل رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ امریکی صدر نہیں کوئی تھڑے باز یا وہ گوئی میں مصروف ہے اور ساتھ ایک مشٹنڈا بیٹھا ہے۔ ادھر نیتن یاہو اس سکون سے بیٹھا تھا، جیسے کوئی بیوپاری اونی پونی قیمت ادا کرکے گائے ہتھیا چکا ہو۔ اس نے بھی نہیں کہا کہ بھائی ٹرمپ جو چیز میرے قبضے میں ہے ہی نہیں، وہ تمہیں کیسے منتقل کروں؟ ٹرمپ اور نیتن یاہو سنجیدہ ہیں ہی تو غزہ میں تمام عمارتوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ وہ مدہوش ہیں۔ انہیں کوئی علم نہیں کہ اس منصوبے سے کیسی تباہی نازل ہوگی۔ ستر سال کی ذلالت کے باوجود بنی اسرائیل کو سمجھ نہیں آرہی کہ میز پر بیٹھ کر تنازع سلجھائیں۔ یہ حال ہے، دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا۔ ہر دور میں یہود نے عروج دیکھا مگر آخر خوفناک تباہی سے دوچار ہوئے۔ وجہ؟ خدائی منصوبے کی مزاحمت۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ یہودیوں کو سب سے پہلے مصر میں فرعون نے پامال کیا۔ پھر بخت نصر کے ہاتھوں وہ اسیری اور غلامی کا شکار ہوئے۔ پھر ٹائیٹس رومی نے انکو تاراج کیا۔ پھر عیسائیوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے۔ پھر مسلمانوں نے انکو ذمی بنایا۔ اسکے بعد ہٹلر ان پر عذاب بنکر نازل ہوا۔ مسلمانوں کا زوال تو انکے مقابل کچھ بھی نہیں۔ ’’اور ہم نے اسکے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اس سرزمین پر رہو۔ پس جب آخری بار کا وعدہ ظہور میں آئیگا تو ہم تم کو جمع کرینگے گروہ در گروہ‘‘۔ گروہ در گروہ یہودی اسرائیل میں اکھٹے ہو ئے۔ آخری بار کا وعدہ بھی پورا ہونیوالا ہے۔ مسلمان علم سے دور ہیں۔ ان میں القاعدہ جیسے گروہ موجود ہیں، وہ مشقت سے جی چراتے ہیں۔ یہود کی صورتحال مگر بدتر ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر ماننے سے انکار کیا۔ محض انکار ہی نہیں کیا، سولی چڑھانے کی کوشش کی۔ شیطان والی خوش فہمی کہ ہم خاص ہیں۔ ہم سے باہر پیغمبر کیسے آسکتے ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے رسالت مآب ﷺکو پیغمبر ماننے سے انکار کیا۔عیسائی مگر اس شدت تک نہیں پہنچے۔یہودی مدینہ منورہ سے نکال دیئے گئے توآج تک رنج میں ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کیا۔ کئی عرب ممالک بیچ میں تھے مگر مدینہ منورہ کا جان بوجھ کر ذکر نہیں کیا۔ بنی اسرائیل اس وقت تک راہ راست پہ رہے، جب تک فرعون مسلط رہا۔ مسلمان اس وقت تک جفا کش رہے، جب تک غربت تھی۔ یہود کا حال یہ تھا کہ موسیٰ ؑ سے کہاکہ آپ جا کر جنگ لڑیں اور آپ کا خدا لڑے، ہم کیوں لڑیں۔ بچھڑے کو معبود بنایا۔ فرمائش کر کے من و سلویٰ نازل کرایا اور پھر پیاز اور خربوزے کی طلب ہونے لگی۔ کیا ایسی بھی کوئی قوم ہو سکتی ہے جو اقوام ِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا داخلہ بند کر دے۔ ادھر ٹرمپ عالمی فوجداری عدالت پہ پابندیاں لگاتا پھر رہا ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو دیوانے ہو چکے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ اس منصوبے سے کتنی تباہی نازل ہوگی۔ پنجابی میں ایک لفظ ہے ”کھَس لینا“مطلب چھین لینا۔ ادھر یہودی فلسطین کھَس کے بیٹھے ہیں، ادھر دوسری طرف ٹرمپ کینیڈا کھَسنے کے چکر میں ہے۔ تاجر کو حکمرانی سونپنے سے اسی لئے منع کیا گیا کہ لالچی ہوتاہے۔ ادھر ٹرمپ پانامہ کینال بھی کھسنے کے چکر میں تھا۔پانامہ نے چینی شاہراہِ ریشم سے علیحدگی کا اعلان کر کے جان چھڑائی۔ چین کا خطرہ امریکہ کے سر چڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بیس ٹریلین ڈالر کی چینی معیشت بمقابلہ تیس ٹریلین کی امریکی معیشت۔ مصنوعی ذہانت میں چینی ڈیپ سیک نے آتے ہی امریکی چیٹ جی پی ٹی کو پچھاڑ کے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ایک ٹرلین ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ ساری دنیا کی منڈیوں میں چینی مصنوعات راج کررہی ہیں۔ امریکہ کیلئے مگر چین سے بڑا خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ یاد رہے کہ ہٹلر الیکشن جیت کر ہی حکمران بنا تھا۔خدا ڈنڈے نہیں برساتا، عقل ماؤف کر دیتاہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ بلاوجہ ٹرمپ کی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔امریکی قوم کی عقل ماری جا چکی۔قرآن میں لکھا ہے: اوربہت سی بستیوں کو ہم نے اس وقت جا پکڑا، جب وہ اپنی معیشت پر اِترانے لگیں۔ٹرمپ ایک تو خود ارب پتی تاجر، اوپر سے اپنے ملک کا حکمران، اوپر سے امریکی معیشت دنیا میں سب سے بڑی۔ٹرمپ طاقت کے خمار میں ہے۔امریکہ جس وقت اسرائیل کے دفاع میں مصروف ہے، چین امریکہ کو پچھاڑنے میں۔ دنیا کے اکثر ممالک غزہ کو خالی کرنے کی تجویز کو پاگل پن سمجھتے ہیں مگر ٹرمپ اور نیتن یاہو کو کون سمجھائے۔ بادشاہ کو کون بتائے کہ وہ ننگا ہے۔

تازہ ترین