ڈاکٹر علی اعظم، چنگدو، چین
گرچہ زندگی کا سفر مختصر ہے، لیکن اس میں بےشمار تجربات اور چیلنجز پوشیدہ ہیں۔ زندگی کا ہر لمحہ ہی ہمیں ایک نیا سبق دیتا اور ہر موڑ پر ہماری شخصیت کو نکھارنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور اگر کوئی شخص سیکھنا چاہے، تو گاؤں کی سادہ زندگی بھی اُسے کام یاب اور پُرسکون زندگی گزارنے کے کئی طریقے سکھا سکتی ہے۔
جیسا کہ گزشتہ برس سردیوں کی تعطیلات میں ہمیں گاؤں جانے کا موقع ملا، تو وہاں ہماری ملاقات ایک دانش وَر بزرگ سے ہوئی۔ ہمیں اُنھوں نے بتایا کہ’’ ایک کام یاب اور پُرسکون زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’کام یابی اورسُکون کا راز سادگی، دیانت داری اور دوسروں کی بھلائی میں پوشیدہ ہے۔‘‘
انہوں نے ہمیں زندگی کے چار مراحل، ’’پُکھ، رَج، کُود اورپھا‘‘ کےفلسفے سے بھی رُوشناس کروایا اوراُن کا اندازِ بیان اتنا سادہ اور پُراثر تھا کہ محسوس ہوا، جیسے اُنہوں نے اپنی زندگی کے تمام تر تجربات کا نچوڑ چند جملوں میں سمیٹ کررکھ دیا ہے۔
درحقیقت، یہی تجربات انسان کو زندگی کے حقائق سے آگاہ کرتے ہیں اور اِن میں پوشیدہ اسباق ہمیں دُنیا کو ایک منفرد زاویے سے دیکھنے کے قابل بناتے ہیں۔ بزرگ دانش وَر کا انسانی زندگی کے چار مراحل پر مشتمل نظریہ ایک نئی سوچ کو اجاگر کرنے کے علاوہ زندگی کے سفر میں ایک عام انسان کی جدوجہد، کام یابی، غرور اورانجام کی کہانی بھی بیان کرتا ہے۔ نیز، یہ بھی بتاتا ہے کہ طاقت، اختیار اور عروج کے ساتھ کس طرح ایک متوازن اور بامعنیٰ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
1۔ پُکھ (بُھوک) یعنی خالی ہاتھ جدوجہد کا آغاز:
انسانی زندگی کا پہلا مرحلہ ’’پُکھ‘‘ (بُھوک) ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اس مرحلے میں انسان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ یہ دَور مشکلات، مایوسیوں اور آزمائشوں سے عبارت ہوتا ہے اور یہ انسان کی خُود اعتمادی، صبر اور مستقل مزاجی کا امتحان لیتا ہے۔
یہ پہلا مرحلہ انسان کو سکھاتا ہے کہ گرچہ اس کے پاس مال ودولت نہیں ہے، لیکن اُس کی منفرد صلاحیتیں، استعداد، طاقت و قوّت اور آگے بڑھنے کی لگن ہی اُس کی سب سے بڑی متاع ہیں۔ یہ دَور ہی اُس کی زندگی کی اصل بنیاد رکھتا ہے، جس میں وہ اپنے کردار، سوچ اور اصولوں کو استوار کرتا ہے۔
2۔ رَج (سیر ہونا) یعنی کام یابی، استحکام اور عاجزی کا مقام:
زندگی کا دوسرا مرحلہ ’’رَج‘‘ ہے، جو کام یابی کے حصول اور استحکام کا دَور کہلاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان اپنے خوابوں کی تعبیر اور اپنی محنت کا پھل پاتا ہے۔ اِس مرحلے میں وہ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوتا ہے اور یہ کام یابی اُسے اعتماد بخشتی ہے۔
نیز، اِسی مرحلے میں اُسے سماجی اور مالی استحکام بھی حاصل ہوتا ہے، لیکن یہ کام یابی کے ساتھ عاجزی و انکساری کا بھی وقت ہوتا ہے۔ اگر انسان اِس مقام پر اپنےاختیار اور طاقت کو عاجزی کے ساتھ استعمال کرے، تو وہ اپنی زندگی میں توازن برقرار رکھ سکتا ہے۔
3۔ کُود (چھلانگیں لگانا) یعنی غرور اور اخلاقی زوال:
تیسرا مرحلہ ’’کُود‘‘ ہے۔ یعنی ایسی چھلانگ لگانا کہ انسان حد سے تجاوز کرجائے۔ اس مرحلے میں انسان اپنی کام یابی کے نشے میں چُور ہو کر عموماً غرور و تکبّر کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے کہ جب انسان اپنی طاقت اور اختیار کا بےجا استعمال کرتا ہے اور خُود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے۔ ’’کُود‘‘ کا مرحلہ تباہی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس مرحلے میں انسان لوگوں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے، لیکن تب اُسے اپنےاعمال کےنتائج کا اندازہ نہیں ہوتا۔
4۔ پھا ( پھندا ) یعنی انجام اور جواب دہی کا مرحلہ:
زندگی کا آخری مرحلہ ’’پھا‘‘ ہے، جس کا مطلب اپنے اعمال کا حساب دینا اور اپنے کیے کی سزا پانا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کو اپنے کیے کا انجام دیکھنا اور اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ مرحلہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اختیار اور طاقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے اور ہرانسان کو بالآخر اپنے اعمال کا حساب دینا پڑتا ہے۔
چار نکات پر مشتمل یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل کام یابی دوسروں کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔ طاقت اور اختیار عارضی چیزیں ہیں اور بہرکیف، ایک دن ہمیں اپنے ہرعمل کا حساب دینا ہوگا۔ اگر کسی نے اچھے اعمال کیے ہیں، تو اُسے اُن کا صلہ ملے گا اور بُرے اعمال پر سزا کا سامنا بھی کرنا ہی پڑے گا۔