ایک بار رحیم یار خان شہر میں تین مسلح ڈاکو واردات کرکےنکلے تو پولیس کو اطلاع مل گئی، جس وقت وائرلیس پر واردات اور ڈاکوؤں کے فرار کا میسیج چلا، اُس وقت مَیں اپنے دفتر میں تھا۔ فوری طور پر اپنے گارڈز کو لےکرجیپ میں بیٹھا اور ڈاکوؤں کے پیچھے نکل کھڑا ہوا، ہم نے دس بارہ کلومیٹر تک اُن کا پیچھا کیا، بالآخر وہ سڑک چھوڑ کچی پگڈنڈیوں پر نکل پڑے، پولیس کی دو گاڑیاں اور میری جیپ اُن کا پیچھا کرتی رہی۔
بالآخر کلاشنکوفس سے مسّلح ڈاکو موٹرسائیکل چھوڑ کر کماد کی فصل میں گھس گئے۔ ہم پہنچے تووہاں کچھ دیہاتی کھڑے تھے۔ انہوں نے ہی بتایا کہ ڈاکو اِس کماد کی فصل میں گُھسے ہیں۔ ایس ایچ او نے دیہاتیوں سے کہا کہ آپ کماد کے اندر جائیں۔ ڈاکو باہر نکلیں گے توپولیس کھڑی ہوگی، جو اُنہیں دَھر لے گی۔ دیہاتی جانتے تھے کہ ڈاکو کلاشنکوفس سے مسّلح ہیں، کسی کو دیکھتے ہی فائرکر دیں گے، تو وہ خوف کے مارے اندر داخل ہونے پر آمادہ نہ ہوئے۔
پولیس بھی اس قدر گھنی فصل کے اندر گھسنے سے گریزاں تھی۔ مَیں نے صرف چند سیکنڈز کے لیے سوچا اور پھر باآوازِ بلند کہا۔ ’’میرے پیچھے آؤ۔ آج یہ ڈاکو بچ کے نہ جانے پائیں۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں کماد کی فصل میں داخل ہوگیا۔ میرے پیچھے پیچھے میرے گن مین بھی آگئے اور پھر باقی پولیس بھی فصل میں داخل ہوگئی۔ اس واقعے کا سبق یہ ہے کہ بعض اوقات کمانڈر کو خود فرنٹ سے لیڈ کرنا پڑتا ہے، تب فورس متحرک ہوتی اور لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
بہرحال، آپریشن بڑا رِسکی تھا، مگر اللہ نے مدد کی اور دو ڈاکو کماد کی فصل ہی میں مارے گئے۔ ایک بھاگ کرساتھ والی کپاس کی فصل میں جا گُھسا اور میرے گن مین نے پیچھا کر کے اُسے بھی دھر لیا۔ کئی دنوں تک ضلعے میں چرچا ہوتا رہا کہ ایس ایس پی خُود سب سے پہلے جان کا رِسک لے کر ڈاکوؤں کے پیچھے کماد کی فصل میں داخل ہوا، تو پھر اُس کے پیچھے پولیس بھی داخل ہوگئی اور اس طرح ڈاکوؤں کا قلع قمع ہوا۔
پھر ایک بار یوں ہوا کہ صادق آباد سے ایک نوجوان (جو حافظ ِقرآن بھی تھا اور ہر روز صبح جِم جا کر ورزش کرتا اور باقاعدگی سے کئی میل دوڑ لگاتا تھا) اغوا ہوگیا، چند روز بعد اُس کے گھر فون آیا کہ اتنے پیسے فلاں جگہ پہنچا دو، گھر والے پیسے لے کر پِھرتے رہے، پولیس بھی مسلسل نگرانی کرتی رہی، مگر اغواکار ہاتھ نہ آسکے۔ چند روز بعد اغوا کاروں سے متعلق کہیں سے اطلاع ملی، پولیس فوری طور پر وہاں پہنچی، وہاں ڈاکو تو نہ مل سکے، مگر اغوا شدہ نوجوان کی لاش مل گئی۔
بہت دُکھ ہوا کہ ہم نوجوان کو زندہ برآمد نہ کرسکے۔ مَیں صادق آباد جاکر نوجوان کے جنازے میں شریک ہوا۔ نمازِ جنازہ کے بعد مقتول نوجوان کے والد میرے گلے لگ کر روتے رہے اور مَیں اُنہیں حوصلہ دینے کی کوشش کرتا رہا۔ اُن سے بار بارکہتا رہا کہ ’’مجھے بہت دُکھ ہے کہ ہم آپ کے بیٹےکو نہ بچا سکے، مگرآپ کے بیٹے کا خون ہم پرقرض ہے اور ہم یہ قرض ضرور اُتاریں گے۔‘‘
پولیس نے انسپکٹر عزیز اللہ اور منیر افضل جیسے بہادر افسروں کی سرکردگی میں قاتلوں کی تلاش میں دن رات ایک کردیا، چھے سات دن بعد کچھ مفید clue ملے، جن کی مدد سے ایک مجرم صادق آباد کی ایک نواحی بستی سے پکڑ لیا گیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایک گینگ کا رکن ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سندھ کے رہائشی ہیں۔ اُس کی نشان دہی پر صوبۂ سندھ کے اندر جا کر ریڈ کیا اور دو اصل قاتل بھی مل گئے۔
اس گینگ نے کئی اغوا کیے تھے اور وہ قتل اور ڈاکے کی درجنوں وارداتوں میں ملوّث تھے۔ پکڑے جانے کے کچھ روز بعد یہ خطرناک ڈاکو اور اغواکار فرار ہونے کی کوشش میں اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ پولیس نے صادق آباد کے مرکزی عثمانیہ چوک پر چند گھنٹوں کے لیے اُن کی لاشیں لٹکا دیں، تاکہ دیکھنے والوں کوعبرت ہو۔ سندھ جانے والی بسوں، ویگنوں کے مسافر اُتر کر خطرناک ڈاکوؤں کی لاشیں دیکھتے اور پھر سندھ کی جانب روانہ ہوتے۔ سندھ میں پہنچنے والا میسیج بڑا واضح اور غیرمبہم تھا۔
اُس کے بعد میری تعیناتی کے دوران وہاں ڈاکے یا اغوا کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔ ہر طرف ٹھنڈ پڑ گئی۔ عوام کےہرطبقے کو احساسِ تحفّظ ملا اور امن ہوجانے پر لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ جرائم کے خاتمے کے علاوہ ہم نے تھانوں سے رشوت اور بدتمیزی کا کلچر اور مظلوموں کے ساتھ پولیس کا غیرہم دردانہ طرزِ عمل تبدیل کرنے کی بھی کوششیں کیں، جن کے بہت اچھے نتائج نکلے اور یہ بہتری عام آدمی بھی محسوس کرنے لگا۔
یہ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کا دَور تھا۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 1996ء میں رحیم یار خان کا دورہ کیا۔ وہاں سے واپس آکر انہوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے کہا کہ ’’مَیں رحیم یار خان کی چار پانچ جگہوں پر گیا اور ہر جگہ لوگوں نے ایک بات ضرور کی کہ ’’ایک ایس پی ذوالفقار چیمہ آیا تھا، جس کی وجہ سے پورے ضلعے کے حالات تبدیل ہوگئے۔‘‘
اِس بات سےمجھے بڑی اسٹرینتھ اور اِنسپریشن ملی ہے کہ اگر ایک پولیس افسر پورا ضلع تبدیل کرسکتا ہے، تو ایک لیڈر پورا مُلک تبدیل کیوں نہیں کرسکتا۔‘‘ اور پھر یہ بات انہوں نے 1996ء میں اپنے انتخابی جلسوں میں بھی درجنوں بار دہرائی۔ اُس وقت اُن میں واقعی سسٹم درست کرنے کا بڑا جذبہ موجود تھا، مگر بعد میں وہ خود سسٹم کا حصّہ بن گئے اور بہتری لانے کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑگیا۔
ہمیں حکومتی پارٹی کے چند ممبرانِ اسمبلی کے کچھ خاص آدمیوں سے متعلق شکایت ملی کہ وہ عام لوگوں اور سائلوں سے پولیس اور پٹوار کے نام کے پیسے لیتے ہیں۔ ایک دو متاثرین سے ہم نے تحریری درخواستیں لے لیں اورملزم پکڑ کر بند کر دیئے۔ اِس پرحکومتی پارٹی کے سارے ایم پی اے اور ایم این اے اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے کہ ہمارے خاص آدمی آپ نے پکڑ لیے ہیں، اِس سے ہماری بڑی توہین ہور ہی ہے۔ ہم تو اپنے ووٹرز کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
مَیں نے کہا۔ ’’جب آپ کے آدمی غریب ووٹرز سے پرچہ کروانے اور پٹواری سے نقل لینے کے بھی پیسے لیتے ہیں تو اس وقت آپ کو کیوں تکلیف اور شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، اب ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں، لہٰذا مجرموں کو اُن کے کیے کی سزا ضرور ملے گی اور مَیں اِنہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ پھر کئی ماہ حوالات اورجیل میں خوار ہونے کے بعد انہوں نےغریبوں کے پیسے واپس کیے، تب جا کرضمانت پر رہا ہوئے۔ کسی ایک تھانے میں ہونے والے واقعے کی بازگشت پورے ضلعے میں سُنی جاتی ہے، تو اِن واقعات کا پیغام بڑا واضح (laoud and clear) تھا، جوہر طرف پہنچ گیا۔
میری تعیناتی کو کوئی چارماہ ہوچُکے، تو ایک روز اے ایس پی صادق آباد، اے ڈی خواجہ نے آکر بتایا کہ’’سر! کل مخدوم احمد محمود کے بنگلے پر تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کی میٹنگ ہوئی ہے اورانہوں نےاس پربڑی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اب ہر روز ایس پی آفس کے باہرعوام کا ہجوم ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ڈیرے خالی ہوگئے ہیں، الیکشن ایس پی نے لڑنا ہے یا ہم نے۔
ہمیں اِس صورتِ حال کا سیاسی طور پر بڑا نقصان پہنچ رہا ہے، اس کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہیے اور ازالے کی ایک ہی صُورت ہے کہ وزیرِاعلیٰ سے مِل کر اس ایس پی کو تبدیل کروایا جائے، لہٰذا وہ اس سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ سے ملنے جارہے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’حکومت چاہے مجھے ایک ہفتے بعد یا ایک مہینے بعد ہٹا دے، مگر مَیں اس ضلعے میں جتنا عرصہ بھی رہا، اِن شااللہ قانون کی حُکم رانی ضرور قائم کروں گا اور اِس پر ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔‘‘
مَیں جب رحیم یار خان میں تعینات ہوا، تو اُس وقت صوبائی سروس کے محمود بٹ ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی میں لیکچرار رہ چُکے تھے، بڑے دل چسپ، خوش گفتار اور ذہین شخص تھے۔ سامعین کو دیکھ کر اُن کے مطابق بات کرنے اور کہانی گھڑلینے کے ماہر تھے۔ میرے ساتھ اُن کے مراسم بڑے اچھے رہے۔
ایک روز اُن کا فون آیا کہ آج علماء کے ساتھ بڑی خاص میٹنگ ہے اور علماء کی بڑی خواہش ہے کہ ایس ایس پی صاحب ضرور تشریف لائیں، تو آپ تھوڑی دیر کے لیے آجائیں۔ امن و امان کے سلسلے میں میٹنگز اکثر میرے دفتر ہی میں ہوتی تھیں، مگر بٹ صاحب کے اصرار پر مَیں اُن کے دفتر چلا گیا۔
ڈی سی صاحب اپنے دفتر میں اکیلے بیٹھے تھے اور کسی کے ساتھ فون پر گپ شپ کررہے تھے۔ کانفرنس روم میں علماء کافی دیر سے جمع تھے، مگر بٹ صاحب فون چھوڑ کر میرے ساتھ گپ شپ لگانے لگے۔ مَیں نے ایک دو بار کہا کہ علماء بڑی دیر سے بیٹھے ہیں، اُن کے اردلی نے بھی آکر بتایا کہ مولوی صاحبان کافی ناراض ہو رہے ہیں کہ ہمیں صُبح کا بلایا ہوا ہے اور نہ ڈی سی صاحب آئے ہیں اور نہ ایس پی صاحب۔
اِس پر بھی بٹ صاحب نے کہا۔ ’’خیر ہے، کوئی بات نہیں۔‘‘ بہرحال، کچھ دیر بعد میرے اصرار پربٹ صاحب اُٹھے اور کانفرنس روم پہنچ گئے۔ ایک دو مولوی صاحبان نے تاخیر سے آنے پر احتجاج کی کوشش کی، تو بٹ صاحب بولے ’’پہلے میری بات سن لیں۔ پھر ناراض ہونا۔‘‘ ہال میں خاموشی ہوگئی، تو بٹ صاحب بڑے رقّت آمیز انداز میں کہنے لگے۔ ’’رات کو خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی، تو حضورؐ نے یاد فرمایا کہ دو سال سے مدینہ نہیں آئے۔
بس صُبح اٹھتے ہی ارادہ کرلیا، اب تک پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کے حصول ہی میں مصروف تھا۔‘‘ بس اتنا سُننا تھا کہ مولوی صاحبان باری باری اُٹھ کر آتے، بٹ صاحب کے ہاتھ چُومتے اور واپس اپنی کرسی پر چلے جاتے۔ مَیں نہایت حیرت و استعجاب سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا اوربٹ صاحب کی کام یاب اداکاری پرسخت حیران و پریشان ہوتا رہا۔ ایک بار وکلاء کی تقریب میں بٹ صاحب نے تقریر کی توچیف جسٹس کےساتھ ’’دیرینہ دوستی‘‘ کے کئی واقعات سنا ڈالے۔
وہاں بھی اُن کے خطاب کے بعد کئی وکلاء اُنہیں جُھک جُھک کر ملتے اور کارڈ دیتے رہے، ساتھ بڑے خوشامدانہ لہجے میں گزارش بھی کرتے رہے کہ ’’سر! ہائی کورٹ میں جج صاحبان کی اسامیاں نکل رہی ہیں، چیف جسٹس صاحب سے میری سفارش ضرور کیجیے۔‘‘ اور بٹ صاحب سب کو تسلیاں دیتے رہے کہ ’’آپ سے خصوصی تعلق ہے، آپ کے لیے تو چیف صاحب سے لڑنا بھی پڑا تو لڑیں گے۔‘‘چند ماہ بعد بٹ صاحب کا تبادلہ ہوگیا، تو مجھے تادیر اُن کے کارنامے یاد آتے رہے۔
رحیم یار خان کی ایک امتیازی خاصیت یہ بھی تھی کہ یو اے ای کے حُکم ران شیخ زید بن سلطان النہّیان یہاں سردیوں میں ایک مہینے کے لیے آتے تھے۔ یہاں ریگستان میں شکار بھی کھیلتے اور موسم سے بھی لُطف اندوز ہوتے۔ شیخ زید کی آمد اوراُن کی دل چسپی نے علاقے کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُنہوں نے شہر میں ایک بہترین اسپتال اور ہوائی اڈّا بنادیا تھا۔
ایک بار بادشاہ کی آمد کے سلسلے میں سیکیوریٹی کا جائزہ لینےکے لیے مَیں بھی شہر سے قریباً25 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بادشاہ کے محل گیا، جہاں شاہی محل کے منیجر نے مجھے تمام کمرے دکھائے اور ہنستے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ’’سر! بادشاہ سلامت کی آمد سے تو پورے ضلعے کی موج ہوجاتی ہے۔‘‘ پھر تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’بادشاہ سلامت اور شاہی خاندان کی روایت ہے کہ وہ راستے میں کھڑے گداگروں کو رقم کی تھیلیاں اور منہگی گھڑیاں دیتے ہیں، لہٰذا یہاں کے مقامی زمین دار راستوں پر گداگروں کا رُوپ دھار کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
جب کہ بادشاہ یا شہزادے اسپتال کا دورہ بھی کرتے، تو مریضوں کو بخشش دے جاتے، تو اُس بخشش کے حصول کے لیے بھی مقامی مجسٹریٹ، تحصیل دار اور تھانے دار، ایم ایس پر دباؤ ڈال کر مریضوں کے بستروں پر لیٹ جاتے اور منہگے تحائف وصول کرنے کے بعد گھر آجاتے۔‘‘ یہ سُن کر بہت دُکھ ہوا کہ ہم بحیثیتِ قوم کس قدراخلاقی گراوٹ اور کردار کی پستی کے شکار ہوچُکے ہیں۔ خصوصاً پولیس اور انتظامی افسران کی پست ذہنیت کی داستانیں سُنیں، تو شرم سے گردن جُھک گئی اور مَیں مزید کچھ سُنے بغیر واپس آگیا۔
ایک بار رحیم یار خان میں تعیّنات مقامی بریگیڈ کمانڈر نے بتایا کہ ’’کل شام چیف آرہے ہیں۔ ڈنر آفیسرز میس میں ہوگا اور آپ اور ڈی سی بھی اس میں شریک ہوں گے۔‘‘ ایسی ہی دعوت بہاول پور کے کمشنر اور ڈی آئی جی کوبھی دی جا چُکی تھی، لہٰذا وہ بھی پہنچ گئے اور ہم نے فوجی افسران کے ساتھ آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو ریسیو کیا۔
جس طرح کا جنرل صاحب کا امیج تھا اور اُن کی سخت گیری کے متعلق جس نوعیت کے واقعات سُن رکھے تھے، اُن کے پیشِ نظرمیرا خیال تھا کہ اُن کے ہاتھ بڑے بھاری، مضبوط اورآواز بھی بھاری بھرکم ہوگی، مگر خلافِ توقع اُن کے ہاتھ نرم اور آواز باریک تھی،بلکہ وہ بہت ہی soft spoken تھے۔
ڈنر پر ڈاکوؤں کے خلاف سندھ میں آپریشن اور اُس کےاثرات (fall out) پرمجھ سے سوالات کرتے رہے۔ پولیس کو اِس سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور سیاسی مداخلت کا موضوع چِھڑا تو مَیں نے کہا۔ ’’سر! ہمیں نہ کوئی رکاوٹ درپیش ہے اور نہ ہی کوئی ہمارے کام میں مداخلت کرتا ہے، کوئی وڈیرا ایسی حرکت کرنے لگے تو ہم آپ کا نام استعمال کرکے اسے ڈرا لیتے ہیں۔‘‘اِس پرجنرل آصف نواز مُسکرانے لگے۔ اُن کا خوش گوار موڈ دیکھ کر سویلین افسر ہنس پڑے، مگر آرمی افسر سپہ سالار کی موجودگی میں سیریس ہی رہے۔
بہرحال، آرمی چیف کے دورے کے بعد سفارشی مزید ڈر کر دبک گئے۔ جنرل آصف نواز کے سامنے کمشنر بہاول پور، مرتضیٰ برلاس کا باوقار طرزِ عمل دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اُن کا conduct فدویانہ یا خوشامدانہ نہیں بلکہ مدبّرانہ اور افسرانہ رہا، جس سے مَیں بہت متاثر ہوا اور میرے دل میں اُن کی عزت و وقار میں مزید اضافہ ہوگیا۔ میرے ساتھ ڈی ایم جی کے بےشمار افسران نے کام کیا، مگر پی سی ایس کے جن تین ایسے افسروں کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع ملا، اُن کے پائے کا کوئی منتظم ڈی ایم جی میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔
سردار اسلم سکھیرا صاحب اُس وقت کمشنر ڈیرہ غازی خان تھے، جب مَیں مظفر گڑھ میں اے ایس پی اور مظفرگڑھ کا قائم مقام ایس پی بھی تھا۔ وہیں عامر خان ڈپٹی کمشنر تھے اور بہاول پور کے کمشنر مرتضیٰ برلاس کے ساتھ بہاول پور ڈویژن میں کام کیا۔ تینوں ہی بڑے اعلیٰ پائے کے منتظم، زیرک اور مدّبر افسران تھے۔ (جاری ہے)