ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے سیاسی اور معاشی استحکام نہایت ضروری ہے بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ سیاسی اور معاشی استحکام ہی ترقی کی ضمانت ہے۔ اختلافات حکومت سے ہوں تو یہ جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے لیکن کوئی محب وطن یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ذاتی خواہشات اور مفادات کیلئے ملک کیساتھ دشمنی پر اتر آئے۔ کسی بھی مہذب معاشرے اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواہش مند اپنے ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس وقت پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام اور ریاستی اداروں کو مزید مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے حکومت اور آرمی چیف بمع اپنے ساتھیوں کے کوشاں ہیں جس کا واضح ثبوت ایس آئی ایف سی کا قیام ہے۔ فوج کی معاونت سے چلنے والےاس کامیاب ادارے کے قیام کا سہرا آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے سر ہے۔ اس ادارے نے مختصر وقت میں ملک کی اقتصادی ترقی میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ماضی میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
حکومت کی انتھک کوششوں سے ایک ہی سال میں ملک نے اقتصادی ترقی کی وہ منازل طے کی ہیں کہ مخالفین بھی ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرصہ میں عوام کو زبردست مہنگائی برداشت کرنی پڑی اور حکومت کی معیشت کو مستحکم کرنے کی شب وروز کوششوں میں عوام کا یہ حصہ بھی شامل ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ حکومت، فوج اور عوام نے مل کر ملک کو اس دلدل سے نکالا جس میںکچھ لوگوں نے ملک کو دھکیل دیا تھا اور وہ لوگ پھر کنارے پر بیٹھ کر تالیاں بجاتے رہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا وقت بھی بتاتے رہے۔ یہ لوگ پھر بھی باز نہیں آئے بلکہ ملک کو بچانے والوں کی کوششیں سبوتاژ کرنے کے لئے دوسرے ملکوں اور فنانس اداروں کو خطوط بھی لکھتے رہے ۔ ایسے لوگوں نے عوام اور فوج کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی بھی متعدد مذموم کوششیں کیں۔لیکن اللہ رحیم وکریم کے فیصلے حکمت اور لوگوں کی نیتوں کی بنیاد پرہوتے ہیں اس لئے مخالفین کو ہر ایسی مذموم کوشش میں منہ کی کھانی پڑی’’ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے‘‘۔
آج پاکستان معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی کا جھوٹا پرو پیگنڈہ کرنے والے دیکھ لیں کہ آج پاکستان تنہا ہے یا وہ خود تنہا ہوگئے ہیں۔ آج پاکستان پر دوست ممالک کے علاوہ وہ ممالک بھی اعتماد کررہے اور سرمایہ کاری و تجارت کے معاہدے کررہے ہیں جوماضی قریب میں دوسرے ملکوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کئی ممالک کے صدور، وزرائے اعظم، وزراء اور کاروباری وفود نے پاکستان کے دورے کئے اور متعدد معاہدے بھی ہوئے ۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری اور آرمی چیف بھی مختلف ممالک کے سربراہان کی دعوت پر ان ممالک کے دوروں پر گئے اور وہاں بھی اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ حال ہی میں صدر مملکت آصف علی زرداری چین کا پانچ روزہ دورہ کرکے آئے ہیں اور وہاں مختلف اہم معاہدے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب کے وزراء اعلیٰ نے بھی کامیاب اور ثمرآور دورے کئے۔ واضح رہے کہ ایسے بیرونی دورے سیرسپاٹے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ذریعے ملکوں کے درمیان معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی کل دبئی کے حکمران کی خصوصی دعوت پر ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے دوروزہ دورے پرگئے ہیں۔ حکومت، فوج اور عوام پہلی بار ایک پیج پرہیں۔ مخالفین کی تمام مذموم اور ناکام کوششوں کے نتائج ان کی توقعات کے برعکس نکلتے آرہے ہیں۔ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوششوں کا نتیجہ بھی الٹا ہی نکلا ۔ فوج اور عوام کے درمیان جو دوری پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں وہ عوام کو سمجھ آگئیں اور دوست دشمن کی پہچان ہوگئی۔ آج عوام کے دلوں میں پاک افواج کیلئے محبت اور احترام کا جو جذبہ ہے شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو۔ اسی طرح پاک افواج بھی ملک وقوم کی حفاظت اور فلاح کے کاموں میں جان کی پروا نہ کرتے ہوئے پیش پیش ہیں۔ حکومت اور فوج تمام مخالفانہ، جھوٹے پرو پیگنڈوں اور مخالفین کی مذموم وناکام کوششوں کے باوجود ملک کی معاشی ترقی کے لئے اپنی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں کہ
تیز ترک گامزن ،منزل ومادورنیست
پی ٹی آئی کی سیاست ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے جوڑ نہیں کھاتی ۔ ان کی سیاست کا محور ایک ہی شخص کی رہائی ہے اور پارٹی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر انکی سیاست کا یہ محور اور مرکزی خیال ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے بالاتر ہے۔ ایک طرف وہ عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، پارلیمنٹ میں شوروغوغا کرتے ہیں اور دوسری طرف سڑکوں پر بچے کھچے کارکنوں کو مزید خوار کرتے ہیں۔ صوابی کے جلسہ کیلئے کسی رہنما نے کوئی معقول چندہ نہیں دیا۔ کارکن اسلئے شریک نہیں ہوئے (حالانکہ پارٹی کی صوبائی قیادت نے بہت جتن کئے )کہ انکے گھر والوں کوبھی سمجھ آگئی کہ جو9مئی اور 26نومبر کو نکلے تھے وہ ابھی تک گھروں کو واپس نہیں جاسکے جبکہ پارٹی رہنما آزادی کیساتھ ملک بھر میں گھومتے پھرتے اور روزانہ اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کارکنان کو بھی سمجھ آگئی کہ انکو کسی کے مفادات کیلئے قربانی کا بکرا بناکر ان کا مستقبل تباہ کیاجاتا ہے۔ جبکہ انکو اس بات کا بھی ادراک ہوگیا کہ ملک اور ریاستی اداروں کیخلاف نکلنا نہ تو کسی طرح جائز ہے نہ یہ کارکنوں کے مفاد میں ہے کارکن کسی بھی پارٹی کے ہوں وہ اسی ملک کے شہری ہیں۔ نوجوانوں کو وقتی طور پر تو ورغلایا جاسکتا ہے لیکن وہ بھی عقل وشعور رکھتے ہیں گھاس تو نہیں کھاتے۔