• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی یہاں ،گھوڑے بولتے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ گھوڑے صرف دوڑ سکتے ہیں اور دوڑنے کےعلاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے تو پھر آپ غلط سمجھتے ہیں گھوڑے دوڑنے کےعلاوہ بول سکتے ہیں ۔ اگر موقع دیا جائے تو گھوڑے گانا بھی گا سکتے ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو گھوڑے ڈویٹ بھی گاسکتے ہیں  یعنی گھوڑے لتامنگیشکر اور میڈم نورجہاں کے ساتھ مل کر گانا گاسکتے ہیں ۔ گھوڑوں کی چھپی ہوئی لیاقت کا پتہ مجھے تب چلا تھا جب میں نے ایسے ادارے میں ملازمت کی تھی جس کا نام میں آپ کو بتا نہیں سکتا ، ادارے کے کسی ملازم کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ادارےکا نام کسی کو بتاسکے۔ اس پابندی کا اطلاق تمام ملازمین پر لازم ہے پھر چاہے وہ حاضر سروس ہوں یا ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہوں یا پھر کچھ عرصہ کے لئے ملازمت کرنے کےبعد ملازمت چھوڑکر جاچکے ہوں۔وہ ادارے کا نام اور کام کسی کو بتا نہیں سکتے ۔ میں خود خفیہ احکامات کا پابند ہوں اس لئے میں آپ کو اس ادارے کا نام نہیں بتا سکتا۔

خفیہ ادارے میں کام کرنے سے پہلے گھوڑے بگھی اور تانگہ کھینچ سکتے ہیں، گھوڑےگھڑسواری کے کام آتے ہیں،  خفیہ ادارے میں کام کرتے ہوئے جب میں نے گھوڑوں کو بولتے ہوئے سنا، گھوڑوں کو بولتے ہوئے دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے اوسان خطا کرنے جیسی بات بھی تو تھی! گھوڑوں کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں ،بولنے والے گھوڑوں کی دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ میں نے تحقیق یعنی ریسرچ تو نہیں کی ہے مگر میں سمجھتا ہوں بولنے کےبعد گھوڑے کی دو ٹانگیں غائب ہوجاتی ہیں ۔ یہ تحقیق طلب بات ہے مجھے پراسرار اور غیبی باتیں اچھی لگتی ہیں مگر غیبی باتوں کی چھان بین کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میرے لئے غیبی باتیں مقدس ہوتی ہیں ۔ خفیہ ادارے میں کام کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اعلیٰ عہدوں پر کام کرنیوالے افسران گھوڑوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ افسران بھی گھوڑوں کےمنہ سے نکلی ہوئی بات کو مقدس سمجھتے ہوئے اہمیت دیتے تھے۔ خفیہ ادارے میں کام کرتے ہوئے پتہ چلا کہ کچھ اور ادارے بھی ہیں جن کی کمال کی کارکردگی کا انحصار گھوڑوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر ہوتا ہےوہ گھوڑوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر فوراً عمل کرتے ہیں ۔ گھوڑوں کےمنہ سے نکلی ہوئی بات ان کیلئے حرف اول اور حرف آخر ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر تمام پاکستانی پولیس کی عمدہ اور اعلیٰ کارکردگی کا انحصار گھوڑوں کی بتائی ہوئی باتوں پر ہوتا ہے ۔ گھوڑوں کی بتائی ہوئی باتوں پر فوراً سےپیشتر عمل کرتے ہوئے پولیس،چور اچکوں ، رہزنوں ، ڈکیتوں ، قاتلوں، مجرموں اور پیشہ ورانہ پاپیوں کا قلع قمع کردیتی ہے ۔ تب جاکر پتہ چلا کہ پولیس والے اپنے بولنے والے گھوڑوں کو مخبر کہتے ہیں ۔اسکے بعد کھوجیوں کو اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے میں دیر نہیں لگتی۔ پتہ چلا کہ قانون نافذ کرنیوالے بڑے بڑے اداروں کا انحصار مخبروں پر ہوتا ہے ۔ مخبر اگر مینڈکی ہے اور بدقسمتی سے مینڈکی کو نزلہ زکام ہوجائے تو ادارے کا سارا کام ٹھپ ہوجاتاہے ادارے کی لاجواب کارکردگی تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے ۔ پیشہ ور مجرم ، قاتل اور رہزن معاشرے کو مستقل طور پر ماؤف کردیتے ہیں ۔ ایکسائز اور ٹیکسیشن والوں کا یہی کام ہے ،کسٹم والے مخبری کےبغیر ایک قدم اٹھانےکو تیار نہیں ہوتے ۔ خفیہ ادارے میں کام کرتے ہوئے پتہ چلا کہ یہ تمام تر شرارت انگریز اور انگریزی زبان کی ہے ۔ ایک انگریزی محاورہ کچھ اس طرح کا ہے From Horses' mouth ، یعنی ایسی بات جو آپ نے گھوڑوں کے منہ سے سنی ہو ۔ کہنے والے کہتے ہیں اور سنانے والے سناتے ہیں کہ انگریز اپنے آپ سے زیادہ اپنے کتے سے پیار کرتا ہے۔ مگر مخبر بتاتے ہیں کہ کتے سے زیادہ انگریز گھوڑے سے پیار کرتے ہیں ، گھوڑے کو انگریز معتبر اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ ایسی بات پھر چاہےوہ کس ذریعہ اورکس منبع سے آئی ہو ، اور معتبر اور بھروسے والی ہو ، قابل اعتماد اور قابل اعتبارہو، ایسی بات کو انگریز گھوڑے کو منہ سے نکلی ہوئی بات کہتے ہیں ۔ یعنی گھوڑے کے منہ سے نکلی ہوئی بات درست اور قابل یقین ہوتی ہے ۔ ہم دیسی لوگ انگریز کی تقلید کرنے سے بازنہیں آتے ۔ ہم نے اپنے اداروں میں دو ٹانگ والے مخبر رکھ لئے ہیں ۔ چونکہ ان کی باتیں پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہیں ، ہم ان کوگھوڑا مانتے ہیں حالانکہ دیکھنے میں وہ کسی زاویے سے گھوڑے نہیں لگتے وہ ہم سے مشابہہ ہوتے ہیں ۔ شرلاک ہومز کی کہانی چاہےکتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہو، آخر کار بار بار سننے اور دیکھنے کےبعد کہانی میں ہمیں پہلےجیسا تجسس دلچسپی محسوس نہیں ہوتی ۔ اس دوران ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان کےتمام تر عملی اور انتظامی امور کا انحصار گھوڑوں کےمنہ سے نکلی ہوئی باتوں پر ہوتاہے یعنی تمام نظام پر مخبرچھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ مگر پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کی مخبری کررہا ہے ۔ چھوٹے بڑے افسران ایک دوسرے کی مخبری کرتے ہیں مگر پتہ نہیں چلتاکہ کون کس کی مخبری کررہا ہے ۔ عین اسی طرح ہمارے گھر میں منی یعنی چھوٹا پاکستان بنا ہوا ہے پتہ نہیں چلتاکہ ساس،بہو ،نند ،سسر ، بھاوج، برادر نسبتی ، سالے صاحب اور بیوی صاحبہ کے مابین کون کس کی مخبری کررہا ہے ۔

تازہ ترین