گلوکار عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی اور عارف لوہار کو فلموں کا ہیرو بنایا گیا، جبکہ گلوکار سجاد علی، محمد علی شہکی، عدنان سمیع، علی حیدر، عاطف اسلم اور علی ظفر بھی فلموں میں ہیرو آئے۔
اس کے علاوہ ملکہء ترنم میڈم نورجہاں، گلوکارہ سلمیٰ آغا، حدیقہ کیانی اور مسرت نذیر نے بھی مختلف پروجیکٹس میں اداکاری کے جوہر دِکھائے۔
فلموں کے سینئر اداکار ندیم اور نئی نسل کے ہیرو فواد خان سمیت کئی اداکاروں نے اپنا کریئر بطور گلوکار شروع کیا۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی زبوں حالی اور خراب صورتِحال کے ذمہ دار وہ پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز ہیں، جنہوں نے فلمی صنعت کو تجربات کی بھینٹ چڑھادیا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایسے پروڈیوسرز نے عوامی گلوکار عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی اور عارف لوہار کو بھی فلموں کا ہیرو بنانے کی کوشش کی، تاہم اُن کے مداحوں نے بطور اداکار اُنہیں پسند نہیں کیا۔
گلوکار عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی نے ایک نہیں، بلکہ دو چار فلموں میں کام کیا۔ اُن کی فلموں میں دِل لگی، زندگی، ترازو اور قربانی شامل ہیں۔
اسی طرح فوک سِنگر عارف لوہار کو بھی کئی فلموں میں ہیرو بنانے کا تجربہ کیا گیا۔ نامور فلم ڈائریکٹر سید نور نے اپنی فلم ’جُگنی‘ میں عارف لوہار کو شان اور معمر رانا کے ساتھ مرکزی کردار میں کاسٹ کیا اور عارف لوہار کی ہیروئن صائمہ کو بنایا گیا۔ یہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی۔
’پرانی جینز اور گِٹار‘ سونگ سے شہرت حاصل کرنے والے پاپ سنگر علی حیدر کو بھی گلابی انگریزی بولنے والی اداکارہ میرا کے ساتھ فلم ’چلو عشق لڑائیں‘ میں بطور ہیرو پیش کیا گیا۔
علی حیدر نے اس فلم کے علاوہ کئی ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی اداکاری کی، لیکن اُنہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسی لیے انہوں نے موسیقی کو ہی اپنا مستقل کیریئر بنایا۔
سُریلے گائیک سجاد علی کا ہر کوئی مداح ہے۔ اُنہیں بھی فلموں میں ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلم ’ایک اور لو اسٹوری‘ میں اداکارہ نِرما کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے فلم ’وَچن، مُنڈا تیرا دیوانہ‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دِکھائے۔
صدارتی ایوارڈ یافتہ پاپ سنگر محمد علی شہکی نے جدید موسیقی اور ملی نغموں سے دُنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ فلم پروڈیوسر نے اُنہیں اُس زمانے کی صفِ اول کی اداکارہ بابرہ شریف کے ساتھ بطور ہیرو کاسٹ کیا۔
محمد علی شہکی نے بھی دوچار فلموں میں کام کیا، اِن میں سَن آف اَن داتا، شور اور ہانگ کانگ کے شعلے شامل ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار اور موسیقار عدنان سمیع خان کو سید نور نے اپنی فلم سَرگم میں اُس وقت کاسٹ کیا، جب اُن کا وزن بے اِنتہا زیادہ تھا۔ عدنان سمیع کے مدِمقابل زیبا بختیار کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔
اس فلم سے زیادہ گیت مشہور ہوئے۔ اس کے بعد عدنان سمیع خان نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
پاکستانی فلموں کے پروڈیوسرز نے دیکھا کہ گلوکار عاطف اسلم نئی نسل کے دِلوں کی دھڑکن ہیں، تو اُنہیں بھی اداکاری کے میدان میں اُتار دیا۔
عاطف اسلم کو صفِ اول کی اداکارہ ماہرہ خان کے مدِمقابل فلم ’بول‘ میں ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ فلم تو کامیاب ثابت ہوئی، جس کی کئی وجوہات تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عاطف اسلم نے دوبارہ کسی فلم میں کام نہیں کیا۔
البتہ دو برس قبل ڈراما سیریل ’سَنگِ ماہ‘ میں وہ مرکزی کردار میں نظر آئے، لیکن اب عاطف اسلم نے خود کو موسیقی سے جوڑے رکھنے کا فیصلہ کیا۔
’چَھنو کی آنکھ میں ایک نشہ ہے‘ جیسے مقبول گیت سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے ورسٹائل فنکار علی ظفر نے اپنے اداکاری کے کیریئر کا آغاز کالج جینز اور کانچ کے پر سے کیا تھا، اسکے بعد مشہور ڈرامے لُنڈا بازار میں جلوہ گر ہوئے۔
بالی ووڈ کی فلموں سے کیا۔ اُنہیں فلم’تیرے بِن لادن‘، لندن نیو یارک پیرس، چشمِ بددُور، میرے برادر کی دُلہن، دِل کِل اور ٹوٹل سیاپا میں بطور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔
بھارت کی سپرہٹ فلم ’میرے برادر کی دُلہن‘ میں علی ظفر کو کترینا کیف کے ساتھ بےحد پسند کیا گیا، بعدازاں انہوں نے پاکستان میں ایک فلم ’ٹیفا اِن ٹربل‘ پروڈیوس کی، جس میں اِن کی لاجواب اداکاری کو سب نے سراہا۔
اب کئی برس گزر گئے، لیکن علی ظفر نے کسی فلم یا ڈرامے میں کام نہیں کیا۔ وہ اپنی شناخت بطور گلوکار پسند کرتے ہیں۔
فلم انڈسٹری میں 50 برس سے زیادہ عرصہ گزارنے والے لیجنڈری اداکار ندیم نے بھی اپنے شوبز کریئر کا آغاز بطور گلوکار کیا تھا، انہوں نے اداکار وحید مراد کی شادی میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، اُس وقت تک وہ فلموں میں نہیں آئے تھے۔
ندیم نے برصغیر کے نامور موسیقار نثار بزمی اور روبِن گھوش کی موسیقی میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اُن کے مشہور گیتوں میں ’بہت یاد آئیں گے وہ دِن اور کبھی تو تم کو یاد آئیں گے وہ بہاریں وہ سماء‘ شامل ہیں۔
ندیم گلوکار بننے آئے تھے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ فلموں کے کامیاب ہیرو قرار پائے۔ اسی طرح نئی نسل کے سپر اسٹار فواد خان نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز بطور گلوکار شروع کیا تھا، لیکن اُنہیں ڈراما سیریل ’ہمسفر‘ سے غیرمعمولی شہرت ملی۔
بعدازاں انہوں نے بالی ووڈ اور پاکستانی فلموں میں بھی بطور ہیرو کام کیا۔ ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ اُن کی وہ فلم ثابت ہوئی، جس نے فلم بزنس کے سارے ریکارڈ توڑز دیے۔
حدیقہ کیانی کو سب بحیثیت گلوکارہ جانتے ہیں، لیکن خوش شکل ہونے کی وجہ سے انہیں بھی ڈراموں میں اداکاری کروائی گئی۔ ڈراما سیریل ’بیوہ‘ اور ’رقیب‘ میں اُنہیں ناظرین نے بےحد پسند کیا۔
گلوکارہ سلمیٰ آغا نے بھی کئی فلموں میں بطور ہیروئن کام کیا۔ بھارتی فلم ’نکاح‘ میں اُن کی اداکاری کو پسند کیا گیا لیکن وہ کامیاب ہیروئن ثابت نہ ہوئیں۔
اسی طرح ملکہ ترنم میڈم نورجہاں اپنے کیریئر کے عُروج میں دلیپ کمار جیسے سپراسٹار کے ساتھ بڑے پردے پر نظر آئیں، انھیں بطور ہیروئن بھی پسند کیا گیا لیکن اُن کا بنیادی تعلق زندگی بھر موسیقی سے ہی رہا۔
انکے علاوہ مسرت نذیر نے بھی موسیقی اور فنِ اداکاری میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھائے۔