• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان بھی بڑا عجیب ہے اپنے ہاتھوں سے خود ہی بت تراشتا ہے اور پھر اسی بت کو خدا بنا کر پوجنا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال بیانیےکا بھی ہے انسان خود ہی بیانیے کو تشکیل دیتا ہے اور پھر خود ہی، پہلے اپنے تشکیل کردہ بیانیےکے جال میں پھنستا اور اسی بیانیےکا غلام بن جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر قانون اور تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں بیانیےکے تضاد کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کی اصل وجہ ان کا بیانیہ ’’ہم بھارت سے ہزار سال تک جنگ کریں گے‘‘ تھا۔ پیرزادہ کا خیال تھا کہ اس بیانیےکی وجہ سے پیپلز پارٹی 1970کا الیکشن جیتی تھی۔ یہ بیانیہ دراصل حقیقت پسندانہ تو تھا نہیں محض ایک جذباتی نعرہ تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو انہیں عملیت پسند اور حقیقت پسند بننا پڑا۔ ہزاروں پاکستانی بھارتی جیلوں میں تھے، سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل پاکستانی رقبہ بھارت کے تسلط میں تھا، ایسے میں بھٹو کو اپنے جذباتی بیانیے کے خلاف جا کر شملہ معاہدہ کرنا پڑا، جس سے پاکستانی قیدی بھی رہا ہو گئے اور پاکستان کا رقبہ بھی واگزار ہو گیا مگر اس معاہدے نے بھٹو کے قول و فعل میں تضاد کو واضح کر دیا اور بقول حفیظ پیرزادہ یہ وہ تضاد تھا جو بالآخر بھٹو کے زوال کا باعث بنا۔ دائیں بازو اور مقتدر طاقتوں نے شملہ معاہدے پر بھٹو کو کبھی معاف نہ کیا۔

آج کے حالات دیکھ لیں۔ آج کل پھر بیانیوں کی جنگ چل رہی ہے۔ مقتدرہ امید اور خوشحالی کا بیانیہ بنانے کی کوشش میں ہے جبکہ عمران خان تبدیلی اور انقلاب کے دلکش اور دلفریب بیانیے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ جس طرح بھٹو کا ہزار سال تک جنگ کا بیانیہ جذباتی تھا بالکل اسی طرح عمران خان کا انقلاب کا بیانیہ بھی جذباتی ہے۔ اس کا حقیقت پسندی اور عملیت پسندی سے کوئی تعلق نہیں، جذبات کے ہوائی گھوڑے پر سوار عمران خان کو مشکل مرحلے کا سامنا ہے، وہ انقلاب کے راستے پر چلتے ہیں تو ہر طرف کانٹے ہیں، ڈیل کرتے ہیں تو بھٹو جیسے تضاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بھٹو تو شملہ معاہدہ کر کے بھی 5سال برسراقتدار رہ گئے۔ عمران خان اور انکی جماعت کا خیال ہے کہ ڈیل سے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔ دراصل عمران خان اور انکے شدت پسند حامی اپنے انتہا پسندانہ بیانیے کے غلام بن چکے ہیں۔ بھٹو نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے بیانیے کو خود روندا وہ مقبولیت پسندی کا غلام نہیں بنا۔ عمران خان کو کسی اور نے نہیں ان کے اپنے ہی وضع کردہ بیانیے نے غلام بنا رکھا ہے، ان کے حامی یوٹیوبرز انہیں جیل سے نکلنے نہیں دیں گے کیونکہ وہ تو ہر صورت میں جنگ اور تشدد سے انقلاب لانا چاہتے ہیں جو عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کے اعتبار سے دور دور تک ممکن نظر نہیں آتا۔

مسلم لیگ نون کا المیہ بھی اس کے ماضی کے بیانیےاور حال کے عمل میں واضح تضاد کا ہے، ووٹ کو عزت دو کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنا کر جب آپ کوئی معقول وجہ بیان کئے بغیر اسی اسٹیبلشمنٹ کے حامی بن جاتے ہیں تو پھر ووٹرز اس تضاد بیانی کو ہضم نہیں کر پاتے۔ نون کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ایک طرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوائی قلعہ تعمیر کیا گیا اور پھر خود ہی اس قلعے کو مسمار کرکے حکومت میں بیٹھ گئے۔ بنیادی غلطی ایک طویل خاموشی اور اپنے فوج کے ساتھ اتحاد کی معقول وجہ بیان نہ کر سکنا تھا۔ بھٹو نے شملہ معاہدے کے باوجود اپنی مقبولیت قائم رکھنے کیلئے شملہ معاہدے میں بھارت سے جیتنے کا تاثر دیا، بار بار کہا جاتا رہا کہ بھٹو نے شملہ مذاکرات کے ذریعے 90ہزار جنگی قیدی رہا کروائے، ہزاروں ایکڑ اراضی واپس لے لی۔ چنانچہ بھارت کو جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر شکست دینے کا بیانیہ تراشا گیا، جو چاہے افسانوی اور غلط تھا مگر اس بیانیے اور معقول وجہ کے سبب بھٹو کی مقبولیت گر نہ سکی۔ نواز شریف بھی اسی طرح کا معقول اور مقبول بیانیہ اپنا کر اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکتے تھے وہ یہ بیانیہ بنا سکتے تھے کہ ’’وہ جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے وہ بدل گئی ہے‘‘ مگر انہوں نے تو کبھی اس موضوع پر اظہار خیال ہی نہیں کیا اور نہ ہی یہ مناسب سمجھا کہ اپنے ووٹرز کے سامنے اپنے بدلتے بیانیےکی وضاحت کریں۔

بیانیےکی غلامی کے نتائج بڑے عجیب وغریب نکلتے ہیں ہٹلر کا، جرمن سپرمیسی اور ناقابل شکست ہونے کا بیانیہ اسے مقبولیت کے عروج پر لے گیا آخری ریفرنڈم میں اسے جرمن قوم نے 99فیصد ووٹ دیئے۔ ہٹلر نے یورپ کو فتح کرنا شروع کیا تو اس کا بیانیہ مزید پاپولر ہو گیا، دشمن ملک برطانیہ میں بھی ہٹلر کے حامی پیدا ہو گئے مگر جب جرمن فوجوں کو پے درپے شکست ہونے لگی تو ہٹلر کا جنون ٹوٹ گیا اور وہ خود بھی اپنے بیانیےکی شکست فاش برداشت نہ کر سکا اور اپنے بنکر میں اپنی محبوبہ ایوا براؤن سمیت خودکشی کر لی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا کبھی سنٹرل پنجاب میں راج ہوتا تھا، اس کا 1977ء کے بعد کا بیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو کی کرشمہ سازی پر مبنی تھا پھر یہ تبدیل ہو کر اینٹی نواز شریف ہو گیا۔ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے مراسم بڑھائے تو ووٹر نے یہ جھٹکا برداشت کر لیا مگر جونہی نواز شریف اور بے نظیر نے میثاق جمہوریت کیا اینٹی نون لیگ ووٹر بیانیےکے تضاد کو برداشت نہ کر سکا اور اب سنٹرل پنجاب میں سوائے پرانے جیالوں کےعوامی ووٹ بینک غائب ہو چکا ہے۔

سب سے دلچسپ کہانی اے این پی کے بیانیےکی ہے۔ خدائی خدمت گار کے نام سے شروع ہونے والی اس تحریک نے بعد ازاں پختون قومیت کا بیانیہ اپنا لیا۔ اس بیانیےمیں دو نمایاں ایشوز کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنا تھا۔ خوشگوار حادثہ یہ ہوا کہ اے این پی کے یہ دونوں مطالبات منظور ہو گئے۔ صوبے کا نام تبدیل ہو گیا اور کالا باغ ڈیم کھٹائی میں پڑ گیا۔ بظاہر ان کامیابیوں سے اے این پی کو سیاسی اجارہ داری مل جانی چاہئے تھی مگر ہوا اس کے برعکس، یعنی نعرے اپنی دلکشی کھو بیٹھے حالانکہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں اے این پی کی قیادت نے دیں مگر پرانے بیانیےکی غلامی نے اسے آئسولیٹ کر دیا اور اب اس کا ووٹ بینک کم ہو چکا ہے۔

بیانیےجتنے تخیل پسند ہوں، جتنے جذباتی ہوں یا جتنے انتہا پسندانہ ہوں، اتنا ہی ان کا انجام بھی انتہا پسندانہ اور خوفناک ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کافی حقیقت پسند ہے مگر وہ بھی بیرون ملک بیٹھے یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے زور زبردستی اور تشدد سے ریاست کا تختہ الٹا نہیں جا سکتا۔ مقتدرہ کے پاس طاقت کے استعمال کا آئینی اور قانونی جواز موجود ہے جبکہ سیاسی کارکنوں کے پاس صرف اور صرف قربانیاں دینے کا حربہ موجود ہوتا ہے۔ گاندھی، حسرت موہانی یا نوابزادہ نصراللہ خان جیل میں خاموش مزاحمت کر کے حکومتوں کو شرمسار کر دیا کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے پاس بھی یہ راستہ کھلا ہے، تشدد سے مزید تشدد جنم لیتا ہے قربانیاں اور عدم تشدد، مخالفوں کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے۔ راستے دونوں ہیں مگر سیاست کیلئے سوائے پرامن مزاحمت کے دوسرا راستہ خطرناک ہے۔

تازہ ترین