جس زبان کے بولنے اور پڑھنے والوں نے تصدق حسین خالد کی نظم، چراغ حسن حسرت کی نثر اور رفیق حسین کے افسانے فراموش کر رکھے ہوں، وہاں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عظیم بیگ چغتائی ایک گمنام نثر نگار ہے۔ محض اتفاق ہے کہ 1895میں پیدا ہونے والے عظیم بیگ 1941میں رخصت ہوئے تو ان کی بہن عصمت چغتائی نے ’دوزخی‘ کے عنوان سے مرحوم بھائی کا ایسا خاکہ لکھا جو عظیم بیگ کی طرفہ طبیعت اور عصمت چغتائی کی جادو بیانی کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گیا۔ منٹو نے اس تحریر کی تحسین کرتے ہوئے اپنی بہن سے کہا تھا۔ ’اقبال اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو تو خدا کی قسم میں آج مرنے کے لیے تیار ہوں‘۔ عظیم بیگ نے درجنوں ناول اور افسانے لکھے لیکن ’کھرپا بہادر‘ نامی مختصر ناول اپنے موضوع اور بنت کی مناسبت سے عبدالحلیم شرر کے ’دربارِ حرام پور‘ سے لگا کھاتا ہے۔ ’کھرپا بہادر‘ کی ابتدائی سطروں کا رنگ بہ تحریف خفیف دیکھئے۔
’لنکران خاں امرائے دہلی سے تھے۔ یکم اپریل 1857کو غدر کی وجہ سے حرم خاص و عام، نمک خوار بھیرو بنگاہ اور 22203مردان کار کے ہمراہ بحر کیسپین کے کنارے پہنچے۔ وہاں ساحل کے پہاڑ اور ٹیلے توڑ کر سمندر میں ایک جزیرہ 142میل لمبا اور ڈیڑھ سو میل چوڑا بنایا اور خود مختار حکومت کی بنیاد ڈالی۔ لنکران شہر دارالسلطنت ٹھہرا۔ سنہ 64ء میں موجودہ حکمراں کا جی گھبرایا اور انہوں نے‘ جنکر کمپنی ’کو ٹھیکہ دے کر آدھا جزیرہ کلکتہ کے قریب بحیرہ بنگال میں باقاعدہ چنوا دیا۔‘ سو برس قبل ’لنکران‘ کی بنیاد رکھتے ہوئے انصاف، برابری، امن، علم اور پیداوار جیسے اصولوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایسے خوابوں کی دنیا کا وعدہ لے کر کون تھا جو آستینیں چڑھا کر تعمیر و ترقی کے لئے خون پسینہ ایک نہ کر دیتا۔ اس ابتدائی زمانے میں ’کھرپا بہادر‘ نام کے ایک کردار کا ملک میں شہرہ تھا۔ لغت میں ’کھرپا بہادر‘ کے معنی احمق، بے وقوف اور بھوندو کے آئے ہیں۔ بادشاہ سلامت نے اپنی بے پناہ فراست کی روشنی میں ’کھرپا بہادر‘ کو داماد بنا رکھا تھا۔ ’لنکران‘ کے باشندے ’کھرپا بہادر‘ کا نام سن کر ہی بے اختیار ہنسنے لگتے تھے۔ زمانے کے انقلابات ہیں۔ آج ’لنکران‘ کی مملکت زور آوری، سازش، جرائم، جہالت، نا انصافی، بداخلاقی، منافقت، جھوٹ، ظلم اور لوٹ مار کے لئے جانی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ لنکران کے ریلوے اسٹیشن پر بھی شہر کا نام بدل کر ’زیر نگران‘ لکھ دیا گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کون کس پر، کاہے کی اور کس لئے نگرانی کر رہا ہے۔
برسوں قبل ’لنکران‘ کے بے آباد مغربی حصے میں تین نوجوان طالب علم ہر روز سہ پہر کے ہنگام سائیکلوں پر ہاکی کھیلنے آیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہوا کرتا ہے، راگ اساوری کی یہ بندش سرمائی شام کے طور شتابی سے بیت گئی۔ ’سانچی کہو تم شیام سندروا / کیوں نہیں آئے مورے مندروا‘۔ شفو کو اس کے سوتیلے باپ نے شب رفتہ کی تھکی ماندی مورتیاں دھونے اور پچکے ہوئے پہیوں میں ہوا بھرنے کا بیوٹی پارلر کھول دیا تھا۔ مقصود سودے نے ایک سرکاری افسر کا زیر زمین عقوبت خانہ سنبھال لیا تھا۔ منیر شوقی کی کم گوئی سے کچھ امید بندھی تھی لیکن ایک روز کتابوں کی کسی پرانی دکان کے پوشیدہ طاقچے میں خط مرموز میں لکھے چھ ایسے مخطوطے اسے ملے جنہیں جھاڑ پونچھ کر اس نے کچھ روز شمع دان کی روشنی میں پڑھا اور پھر غائب ہو گیا۔ کچھ احباب کا خیال تھا کہ کسی زلف عنبریں کی گرہ میں بندھ لیے۔ کچھ کی رائے تھی کہ ’لنکران‘ کے خفیہ خبر رساں کارندوں نے قومی مفاد میں اوجھل کر دیا۔ ایک آدھ طفل کوچہ کی خبر تھی کہ طارق اسماعیل ساگر کا اثر ہو گیا ہے، کہوٹہ کے ٹیلوں میں قومی مفاد اور مدفون خزینے کھوج رہے ہیں۔ اوائل کاتک کی نیم اندھیری رات تھی، چندرماں ایک جھلک دے کر پردہ کر چکے تھے۔ شہر کی گلیاں بے آواز تھیں۔ ’زیرنگران‘ ثم ’لنکران‘ کے پرانے اسٹیشن کی شکستہ دیواروں کی اوٹ سے تین کفن پوش سائے نمودار ہوئے۔ جھجکتے، خوفزدہ اور سحر زدہ۔ گھٹی گھٹی آوازوں سے پہچانا کہ شفو، مقصود اور منیر شوقی ہیں۔ ایک آدھ سہمے ہوئے مکالمے سے جب ایک دوسرے کو پہچان لیا تو ڈر جاتا رہا۔ دنیائیں بدل گئی تھیں۔ شفو کا پیشہ اب فصیل سے متصل محلے سے نکل کر گلی گلی پھیل چکا تھا۔ سر پر سادہ پگڑی باندھے سرپرست اب شرفائے شہر میں شمار ہوتے تھے۔ مقصود سودے کے ہم پیشہ اب زود حس ہو کر نوآموز چور اچکوں سے تاوان کی بجائے قومی سلامتی کے عنوان سے کثیر منزلہ پلازے تعمیر کرتے تھے۔ منیر شوقی جن اداروں میں کبھی تدریس کی پتنگ اڑاتا تھا وہ اب کسی رنگریز کی بہو یا سموسہ فروش کے داماد کی تحویل میں تھے۔ شہر ’لنکران‘ کا محض نام ہی بدل کر ’زیر نگران‘ نہیں ہوا، اس شہر میں جغرافیہ زیر و زبر ہو چکا تھا، تاریخ فراموشی کی زد میں تھی اور تہذیب میلوں پر محیط سر کٹے ہیولوں کا ایک آسیب زدہ منظر تھی۔ تینوں دوستوں نے بے آباد پلیٹ فارم پر چائے پی اور سستے سیگرٹ سلگا کر رات کے اس پہر شہر ’لنکران‘ کو اس سمے دیکھنے کا ارادہ باندھا جب اندھیرا پورے طور پر روشنی کو شکست دے چکا ہو۔ یہ تو انہیں شہر میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ شہر کا نام ہی نہیں بدلا، اس کی بنیاد رکھنے والا ’لنکران‘ بھی فراموش ہو چکا تھا۔ ’کھرپا بہادر‘ اب اس ملک کا بانی بھی تھا، حکمران بھی اور مالک بھی۔ ملک کا ہر ادارہ ’کھرپا بہادر‘ سے اپنے اہل کاروں کے لئے تنخواہ وصول کرتا تھا جو اگلے ہی روز مہر بند لفافوں کی صورت میں ’کھرپا بہادر‘ کے سر کٹے اچکوں کے حوالے کر دی جاتی تھی۔ آدھا ملک کھرپا بہادر کی ملک تھا اور روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ باقی ملک میں کھرپا بہادر کی رعایا نے اندھیری جھونپڑیوں میں سر چھپا رکھے تھے۔ ملک کا نیا دستور مختصر لیکن بامعنی تھا۔ ’ملک اللہ کا، حکومت کمپنی بہادر کی، حکم کھرپا بہادر کا‘۔ یہ بات البتہ عجیب معلوم ہوئی کہ کھرپا صاحب بہادر برادر قریبی ملک میں فروکش تھے۔ رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔