قارئین کرام! آپ پر تو واضح ہے کہ تین سالہ گھمبیر آئینی و سیاسی اور عدالتی و انتظامی بحران جو 8فروری کے بعد اور زیادہ پیچیدہ ہوگیا، کی وضاحت کیلئے ’’آئین نو‘‘ میں وسیع تر مفہوم کے دو الفاظ ’’ابتری‘‘ اور ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ تکرار سے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ناچیز کیلئے پروفیشنل مسیج کنسٹرکشن کا یہ بڑا چیلنج تھا کہ:بحران سے نکلے مرض ’’فسطائیت‘‘ کی جملہ تفصیلات سے خوف و مایوسی کو مزید بڑھانے کی بجائے کوئی دوچار بااثر الفاظ کا انتخاب کرکے ان کی تکرار سے کام چلایا جائے، ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ کے استعمال سے پہلے تو اس کے تاریخی پس منظر پر ایک کالم لکھنا پڑا۔ وائے بدنصیبی بگڑی صورتحال کے ’’واحد حل، شفاف الیکشن‘‘ پولنگ ڈے پر مینڈیٹ میں ہائی ڈگری آلودگی کےبعد ابتر سے ابتر ہوتی گئی، الیکشن کمیشن پر اصل نتائج بلڈوز کرکے ’’ٹیلر میڈ‘‘ کا اعلان کرنے کےسنگین الزامات پر مکمل عوامی یقین اور میڈیا کی تائیدی و تصدیقی خبروں اور تجزیوں نے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جو بدترین صورتحال بعد از انتخاب پیدا کی اس کے نکلے ابتدائی منفی نتائج تیز تر اور بڑے چھوٹے ڈیزاسٹرز کی شکل میں نوبت موجود سماجی سیاسی بے چینی تک آن پہنچی۔ مجھ جیسے ناچیزعملی اور تدریسی صحافت کا پچاس سالہ اور میڈیا کنسلٹینسی نیوز رپورٹنگ کی ایجنڈا سیٹنگ اور سیاسی تجزیوں کی تخصیص سے 45سالہ تجربے کا حامل ہوتے یہ بڑا چیلنج تھا کہ:اپنی سب سے زیادہ جاری و ساری رہنے والی جملہ صحافتی سرگرمیوں میں سے کالم نگاری اور نیوز رپورٹنگ کے ساتھ بعد از ریٹائرمنٹ (نجی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہتے) ٹیچنگ کو بھی کیسے زیادہ سے زیادہ بامقصد اور اختراعی بنایا جائے۔ اس چیلنج کے دباؤ میں اپنی اولین توجہ کالم نویسی کو زیادہ پرکشش کی بجائے زیادہ بامقصد اور نالج بیسڈ کالم نگاری پر مرتکز ہوگئی، اس میں اول الذکر ’’زیادہ جوسی پرکشش‘‘ کو قربان کرنا پڑا کہ طویل علمی و صحافتی زندگی کا حصہ گزارتے ایک بڑا اصول پلے پڑا کہ ’’انہماک ایثار کا طالب ہوتا ہے‘‘ سو کالم میں اسلوبی رنگ بھرنے کی بجائے ترجیح اپنی کالم نگاری کو زیادہ سے زیادہ اشاعتی خبروں کے فالو اپ میں اوپینین و ریسرچ اورینٹڈ تجزیوں،پھر حالات حاضرہ سے قومی مسائل اور ضرورتوں کی اسکیننگ کر کے نالج بیسڈ حل و تجاویز پیش کرنے پر فوکس کر دی، حالانکہ جوسی کالم رائٹنگ کوئی کار محال نہیں، فقط جاری انہماک میں کمی سے یہ آسان تر ہو جاتا ہے۔ سو شکر الحمد للہ اپنے تئیں صاحبان علم کی تائید و تنقید کے فیڈ بیک کے حساب سے صراط مستقیم پر سفر جاری ہے۔ جو یوں بھی کامیاب رہا کہ میں اپنی کالم نگاری کے امپیکٹ فیکٹر (اثر انگیزی) کی از خود مطلوب طریق سے پیمائش کرتا ہوں، اور اسے قارئین کو جتانے یا میاں مٹھو بننے کی بجائے توجہ اس طریق کو بڑھانے پر ہی رہتی ہے۔ شکر الحمد للہ۔ رب زدنی علما۔ رب زدنی علما۔ (آمین)
قارئین کرام! آج ’’آئین نو‘‘ کے مطالعے میں آپ یقیناً چونک جائیں گے۔ جی ہاں، میں آپ کو چونکانا ہی چاہتا ہوں کہ ابتری کا پاکستانی معاشرے میں پیدا ہو گیا اذیت ناک نمونہ کس قدر الارمنگ اور پرخطر ہو گیا ہے، میں کسی حق گو کو حیران و پریشان نہیں کرنا چاہتا، لیکن خبردار کرنا قومی اور میدان صحافت میں سرگرم عمل کے ہر رنگ و مزاج کے صحافیوں کو خبردار کرنا اور اپنی لازم ہو گئی ضرورت کے حوالے سے ناگزیر فریضہ جانا ہے، دوجے پوری اردو انگلش ڈکشنری میں میرے نزدیک سب سے قابل نفرت لفظ ’’بلیک میلنگ‘‘ اور اس کی کوئی معمولی سے وجہ و جواز اور بنیاد بھی نہ ہو تو یہ کار بدشیطانیت کے زمرے میں آ جاتا ہے وگرنہ تو حرف بد کو بولنے اور لکھنے سے ممکنہ حد تک گریز کرنا چاہیے۔ قارئین کرام! چالیس سالہ کالم نگاری میں آپ سے پہلی التجا ہے کہ آپ آئین نو کی اس سیریز کے ساتھ پوری سنجیدگی کے ساتھ جڑے رہیں کہ بندہ اس صحافتی بیماری سے بھی ممکنہ حد تک بچ کر رہنا چاہتا ہے کہ:اپنی کالم نویسی میں ’’میں، میرا اور مجھے‘‘ جیسے الفاظ سے ممکنہ حد تک بچا رہے۔ اس پر کمیونیکیشن سائنس کا سکہ بند اصول ہے کہ:تحریر و کلام کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کیلئے پیغام سازی سورس اورینٹڈ نہیں ممکنہ حد تک ریسیور اورینٹڈ ہونی چاہئے یعنی صحافتی ابلاغ میں ہم صحافیوں کو سوسائٹی (ناظرین، قارئین و سامعین) سے ہی مخاطب رہنا چاہیے اور سورس اورینٹڈ (اپنی شخصیت کے حوالے سے ممکنہ حد تک بچے رہنا لازم ہے) تاہم کمیونیکیشن سائنس چو نکہ بنیادی طور پر سوشل سائنس ہے، سو ’’میں، میری ،میرا اور مجھے‘‘ تحریر و کلام میں آ جانا کوئی شجر ممنوعہ بھی نہیں، کبھی کبھار یہ ضروری اور باجواز ہو جاتا ہے (ریسیورز خود جان جاتے ہیں کہ استعمال کا کتنا جواز ہے سو اثر پذیری متاثر نہیں ہوتی، لیکن بلاضرورت اور کثرت IMPECT FACTORکیلئے ڈیزاسٹر ہے۔ ان علمی حقائق کو پوری صحافی برادری، سینئر کیلئے دہرانے اور یاد دہانی اور جنہوں نے جرنلزم فارمل ایجوکیشن کے طور اسٹڈی نہیں کیاان پر آشکار کرنے سے جزواً اپنے ذاتی حوالے میں یہ کالم سیریز ریکارڈ پر لانے کا جواز بنتا ہے، پھر بھی آپ سے معذرت کا طلب گار ہوں، لیکن اسے برداشت کرکے سیریز سے جڑے رہنا ہم سب کیلئے کار خیر ہے۔
قارئین کرام! اس علمی نوٹ کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں ابلاغی بگاڑ و جگاڑ اور شرو شیطانیت اور ماورائے پیشہ ذاتی و گروہی محدود ترین مقاصد کی مانیٹرنگ پاکستانی میڈیا بشمول (سوشل ترجیحاً) کی (حکومتی نہیں) پیشہ ورانہ اور علمی و تحقیقی مانیٹرنگ لازم ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک الگ سیریز کا ارادہ (بشرط حیات و سکت) رکھتا ہوں۔ دعا کیجئے مہلت مل جائے۔ فی الحال تو میں اپنی ذات پر ایک بزدلانہ، قبیح اور مکمل شیطانیت کے رنگ کے منظم سازش سے ہوئے جاری حملے کے دفاع میں ’’آئین نو‘‘ کی کچھ جگہ لوں گا جو حقیقتاً میری نہیں آپ کی ہے، تاہم قدرے محدود لیکن دوسرے مثبت مقاصد پورے کرنے کیلئے اسی موضوع پر ہی فوکس نہیں کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ معمول کے مطابق حالات حاضرہ کے قومی اور عالمی موضوعات پر بندہ ناچیز کے تجزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ (جاری ہے)