پاکستان کی زیادہ تر برآمدات امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ تک محدود ہیں جبکہ چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے تحت مارکیٹ تک رسائی میں اضافے کے باوجود دوطرفہ تجارت میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت برآمدات بڑھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم بنیادوں پر دس سالہ ٹیکسٹائل پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ برآمدات میں سب سے بڑا حصہ یہی شعبہ ڈالتا ہے اور اسے ترقی دیئے بغیر برآمدات سو ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جولائی 2024 میں نیشنل ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اگلے تین سال میں برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ انہوں نے برآمد کنندگان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کروانے کے علاوہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ہر ڈیڑھ ماہ بعد وہ خود اس بورڈ کے اجلاس کی صدارت کیا کریں گے۔ انہوں نے وزارت تجارت کو برآمدات کی استعداد رکھنے والے شعبوں کے نمائندوں سے مل کر تجاویز کو حتمی شکل دینے کے علاوہ بجلی کی لاگت کو کم کرنے کے لیے نجی شعبے کو پالیسی کی تشکیل کے عمل کا حصہ بنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس میٹنگ کو سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تادم تحریر کوئی عملی اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے نہ تو متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز یا ایکسپورٹرز کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جا سکا ہے اور نہ ہی انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بھی جس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو سہولت دینے کی بجائے ریونیو بڑھانے کیلئے اس پر مزید ٹیکس عائد کیا گیا اس سے انڈسٹری پہلے ہی مایوسی کا شکار ہے۔ اس لئے اگر وزیر اعظم شہباز شریف حقیقت میں برآمدات بڑھا کر ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ فوری طورپر انرجی ٹیرف کم کر کے بینکوں کے مارک اپ کو سنگل ڈیجٹ کیا جائے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام برآمدی صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف حکومتی خزانے پر کسی قسم کے اضافی بوجھ کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے روزگار کی فراہمی میں اضافے سے دیگر معاشی اعشارئیوں میں بھی بہتری آئے گی۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ حال ہی میں جرمنی میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل نمائش "ہیم ٹیکس" میں عالمی گاہکوں کی جانب سے پاکستانی برآمد کنندگان کو اچھا رسپانس ملا ہے اور زیادہ تر ایکسپورٹرز نے بڑے برآمدی آرڈرز ملنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل برآمدات میں فوری طور پر سات سے آٹھ ارب ڈالر اضافے کے مواقع موجود ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کا شیئر بڑھانے کے لئے انٹرنیشنل بزنس کمیونٹی کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک قابل اعتماد سپلائر کے طور پر برآمدی آرڈر کی بروقت تکمیل کر سکتا ہے اور ہمارے پاس وہ سپلائی چین، خام مال اور تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے جو کہ قابل اعتماد انٹرنیشنل بزنس پارٹنر بننے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل حل کرنے اور ملک میں بزنس فرینڈلی اور انڈسٹری کو فروغ دینے والی طویل المدت پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہو سکے۔ اس وقت برآمدکنندگان ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر مسابقتی انرجی ٹیرف کی وجہ سے خدشات کا شکار ہیں۔ اس لئے حکومت کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برآمدات میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مناسب کمی، ریفنڈز کی بروقت ادائیگی اور ایکسپورٹ فنانس اسکیم کی بحالی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کا شیئر بڑھانے کے لئے طویل المدت اصلاحات ضروری ہیں تاکہ انڈسٹری میں براہ راست بیرونی اور مقامی سرمایہ کاری کا راستہ کھل سکے۔ حکومت نے اگرچہ گزشتہ سال کے دوران بینکوں کے مارک اپ ریٹ میں نمایاں کمی کی ہے اور موسم سرما کے آغاز پر انڈسٹری کے لئے بجلی کے زائد استعمال پر ریلیف پیکیج بھی دیا ہے۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب بھی مارک اپ کی شرح اور بجلی و گیس کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں برآمدات بڑھانے کے لئے نئی مارکیٹوں تک رسائی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ بن سکتے ہیں جہاں ٹیکسٹائل کی معیاری مصنوعات کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان کے برآمد کنندگان کو حکومتی تعاون میسر آئے تو باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ان ممالک کے صارفین کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی ٹیکسٹائل مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں جو مستقبل میں ان ممالک کے صارفین کو پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا مستقل گاہک بنا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس میں مارکیٹ کی حرکیات، صارفین کی ترجیحات اور تجارتی قواعد و ضوابط سے آگاہی ضروری ہے جس کیلئے حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مارکیٹ ریسرچ، تجارتی نمائشوں کے انعقاد اور تشہیری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایس سی او ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے معاہدے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔