زندگی کی جو سڑک ہمیں بظاہر خالی دکھائی دیتی ہے وہ بھی ایک ایسے ہجوم سے بھری ہوتی ہے جو ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ زندگی کا میلہ تحرک اور جدوجہد کی علامت ہوتا ہے، سوچوں پر جمود طاری ہو تو چلتے پھرتے وجود بھی ہیولے نظر آنے لگتے ہیں۔ زندگی کی سڑک پر تنہا تنہا چلتے لوگ جب کسی جگہ ٹھہر کر بات کرنے ، جھومنے ، گانے اور سوچ کا تبادلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میلہ بن جاتا ہے، میلہ ملن سے ہے۔بہت سارے لوگ ملتے ہیں تو میلہ سجتا ہے، لوگ سیکھتے ہیں، حوصلہ باندھتے ہیں، ذہن کی گٹھڑی میں نئے تصورات جمع کرتے ہیں، کٹھن راہ کیلئے زاد راہ جمع کرتے ہیں، دل کو جمال سے بھرتے ہیں اور نئے ولولے کیساتھ پھر ایک اور لمبے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی خالی سڑک پر چلتے ہوئے عجیب سا گماں ہوتا ہے جیسے ہمارے ارد گرد بہت ساری کہانیاں چل رہی ہوں، ان لوگوں کی کہانیاں جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن کبھی ان سڑکوں پر چلتے رہے، گرتے اٹھتے رہے، چیختے کراہتے رہے، انکے پاؤں کے لمس سے نکل کر زمین میں دھنس جانیوالا درد آہ بنکر فضا میں بکھرتا ،بین کرتا سنائی دیتا ہے۔ ادیب میں یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ زمین کے سینے میں چھپا ہوا درد بھی محسوس کر لیتا ہے، وہ پرندوں کی آواز اور پکار کا مفہوم جان لیتا ہے، وہ لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا آنکھوں سے پڑھ کر دل کا حال جان سکتا ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سارے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں جنکا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اثر ہماری ذات بھی وصول کر رہی ہوتی ہے۔ سماج میں ہو رہے ظلم ہواؤں میں رچ کر سانجھے کرب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یوں دکھ سکھ میں ہم سب حصہ دار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اردگرد کے واقعات کی کرچیاں دل میں یوں پیوست ہو جاتی ہیں کہ لبوں سے آہ کے ساتھ دل سے چیخ بھی نکل جاتی ہے، ادیب کی یہ چیخ کہانی کا روپ اختیار کرکے لوگوں کے دلوں تک رسائی کرتی ہے، وہ اپنے احساسات کے تجربے میں پورے سماج کو شریک کر کے زندگی کے تلخ اور شیریں ذائقے دکھاتا ہوا ایک سوال سامنے رکھتا ہے کہ زندگی کو کیا ہونا چاہئے تھا اور زندگی کیا ہے؟ ہم کیسے کچھ خامیوں پر قابو پا کر زندگی کی سڑک کو خوشیوں سے بھر سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں بہت ہی خوبصورت انسان اور صحافی خواجہ آفتاب حسن کی 23اردو افسانوں پر مشتمل کتاب’خالی سڑک‘ کے حوالے سے الحمرا میں منعقدہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا، افسانے پڑھ کر ایک عجیب سی خوشی اور حیرت کا ملا جلا تاثر قائم ہوا۔ اگرچہ یہ خواجہ آفتاب حسن کی تیسری کتاب ہے لیکن مجھے کسی وجہ سے انکی پہلی دو کتابیں پڑھنے کا اتفاق نہ ہو سکا جس کے باعث میں انکی عمدہ نثرنگاری سے شناسا نہ تھی۔ ایک صحافی کا مشاہدہ یقیناً زیادہ گہرائی کا حامل ہوتا ہے کہ وہ کئی حوالوں سے منظر کو دیکھتا محسوس کرتا اور نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ لیکن بیان کی ندرت اور اظہار کا سلیقہ قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے مجھے متاثر کیا اور میں انکی تحریروں کی خوبصورتی کی اسیر ہوتی چلی گئی۔ ایک عجیب حقیقت کا منظر نامہ بہت بھلا لگا جس میں خوابناک صورتحال بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے جیسے دن اور رات کے منظر ہوں۔جیسے ہجر اور وصال کے موسم اور حقیقت اور خواب کی باتیں بانہوں میں بانہیں ڈالیں خالی سڑک پر چل رہی ہوں اور خواجہ آفتاب ان کی باتیں لکھتے جا رہے ہیں۔ اس انداز بیان نے افسانوں کو دو آتشہ کر دیا ہے۔تمام افسانے اس دور کے دکھ درد،بے انصافی ، استحصال اور مسائل سے جڑت رکھتے ہیں۔خیالی کہانیوں کو زمینی کردار بنا کر پیش کرنیکی بجائے انہوں نے زمینی کرداروں کو علامت میں ڈھال کر تحریر کو رمز ، منظر کو گہرائی ،معانی کو وسعت اور سوچ کو نئے زاویے عطا کئے ہیں۔تحقیق، ادب اور افسانے کے بڑے نام ڈاکٹر ضیاء الحسن اور ڈاکٹر غافر شہزاد نے انکی کتاب پر جن عمدہ تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ ایک سند کی طرح ہیں کہ خواجہ آفتاب حسن ایک بڑا افسانہ نگار ہے جس کے افسانے میں کمال کی طرف جانیوالے تمام امکانات موجود ہیں۔ہم دعا کرتے ہیں کہ خواجہ آفتاب حسن کی ایسی بصیرت بھری تحریریں سامنے آتی رہیں جو سماج میں ادبی شناسی کیساتھ ساتھ شعوری بیداری کا بھی باعث بنیں، ہم سب ان تحریروں کے آئینے میں خود کو اور سماج کو دیکھیں اور اپنی سوچ پر لگے جالوں اور سماج کے چہرے پر موجود کثافت کو صاف کر کے اپنے عکس کو خوبصورت بنا سکیں۔