راوی: سیّد انور شکیل
تدوین و ترتیب: گوہر تاج
صفحات: 168
قیمت: 1000 روپے
ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، کراچی۔
فون نمبر: 2278878 - 0343
’’ جہاں ماہِ دسمبر میں چلنے والی سرد ہوائیں آپ کے وجود کو یخ بستہ کرتی ہیں، وہیں ہر سال اسی ماہ لاکھوں پاکستانیوں کے دل میں شدید دُکھ، ندامت، ہزیمت اور تاسف کا لاوا بھی آتش فشاں کی صُورت پھٹتا ہے۔ یہ وہ آگ ہے، جو باون برس قبل 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں بھارت سے جنگ میں شکست کھانے، مُلک کا ایک بازو گنوانے اور ہندوستانی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بعد سقوطِ ڈھاکا کی صُورت بھڑکی تھی۔‘‘ اور یہ کتاب اِسی المیے کی داستان ہے۔ سیّد انور شکیل اُن دنوں بارہ، تیرہ سال کے لڑکے تھے۔
اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان کے اِس لڑکے نے اپنے خاندان کے ساتھ بھارتی شہر، میرٹھ کی چھاؤنی میں 22ماہ کی قید کاٹی۔20اکتوبر 1973ء کو رہائی ملی، تو کراچی آکر تعلیمی سلسلہ شروع کیا، جہاں اُن کا ننھیال پہلے ہی سے مقیم تھا، میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، اپنا کلینک قائم کیا اور اِن دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔
اِس کتاب کے راوی کا خاندان ڈھاکا کے قدرے پوش علاقے میں مقیم تھا اور مشہور شاعر، سرور بارہ بنکوی ان کے پڑوسی تھے۔ مارچ 1971ء میں یحییٰ خان نے ڈھاکا میں ہونے والا اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا، تو اِس محلّے پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشتعل بنگالیوں نے اِن کے گھر پر بھی دھاوا بول دیا۔
دوسرے روز یہ خاندان اپنا دومنزلہ بھرا پُرا گھر چھوڑ کر،خالی ہاتھ، سات کلومیٹر ننگے پاؤں چل کر، ایک محفوظ ٹھکانے پر پہنچا، پھر کچھ دنوں بعد میرپور منتقل ہوگیا، جو نسبتاً محفوظ تھا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد وہاں رہ جانے والوں کی پاکستان منتقلی کا اعلان ہوا، تو یہ خاندان بھی کلو کیمپ منتقل ہوگیا، وہاں سے کھلنا اور پھر میرٹھ پہنچا۔ وہاں جاکر اُنھیں بتایا گیا کہ وہ بھی دیگر بہت سے خاندانوں کی طرح جنگی قیدی بنالیے گئے ہیں اور پاکستان سے کسی معاہدے کے بعد ہی اُن کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔یوں جنگی قیدی کے طور پر زندگی کا آغاز ہوگیا۔
انھیں میرٹھ چھاؤنی میں قائم بیرکس میں رکھا گیا، جہاں ہر اُس ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جو اِس طرح کے قیدیوں کو سہنی پڑتی ہیں۔ سیّد انور شکیل نے وہاں بیتے دنوں، تعلیمی سرگرمیوں، کھانے پینے کے قصّے، لڑائی جھگڑے کے واقعات، فلم بینی، رمضان، عیدین، محرّم، بارہ ربیع الاول، شبِ معراج، قومی ایّام، کھیل کود، عزیز و اقارب کے خطوط اور کیمپس میں پنپنے والی عشق و محبّت کی داستانیں بہت دل چسپ انداز میں بیان کی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے دوستوں کو بھی یاد کیا ہے، جن میں سراج انور اور مسعود اختر بھی شامل تھے، جو رفیع احمد فدائی کے صاحب زادے تھے اور بعدازاں روزنامہ جنگ، کراچی سے وابستہ ہوکے ادبی و صحافتی حلقوں میں بہت نام کمایا۔
عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، جو ایک حقیقت بھی ہے، مگر اِس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بنگالیوں نے بھی اُردو بولنے والے بہاریوں اور مغربی پاکستان سے ملازمت کے سلسلے میں وہاں جانے والوں پر ظلم و تشدّد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
انور شکیل کا یہ کہنا کہ یہ کتاب اِس لیے بھی تحریر کی گئی تاکہ نوجوان نسل تک ایک اچھا پیغام پہنچ سکے، تو یہ کتاب واقعتاً اِس مقصد کو پورا کرتی ہے کہ اُن کی زندگی میں نوجوانوں کے لیے بہت سے اسباق پنہاں ہیں۔کتاب کی مرتبہ، گوہر تاج معروف ادبی شخصیت، متعدّد کتب کی مصنّفہ، سوشل ورک اور مائکرو بائیولوجی میں ماسٹرز ڈگری کی حامل ہیں اور اِن دنوں امریکا میں بطور تھراپسٹ خدمات انجام دے رہی ہیں۔