• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیٹوریل بورڈ: پروفیسر سہیل سانگی، پروفیسر توصیف احمد خان و دیگر

صفحات: 192

قیمت: 750 روپے

مقامِ اشاعت: میر محمّد بلوچ پروگریسیو اکادمی، گزدر آباد، کراچی۔

سلاوٹ برادری سے تعلق رکھنے والے، بابا میر محمّد بلوچ کراچی کی ایک قدآور شخصیت تھے۔ ممبئی کاؤنسل کے رُکن منتخب ہوئے اور بڑے دھڑلّے سے ایوان میں عوام کی نمایندگی کی۔ خلافت تحریک میں بھرپور حصّہ لیا، جب کہ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہے۔ یہ کتاب اُنہی میر محمّد بلوچ کے پوتے، لالہ گلشیر عرف لالہ محمّد حسین بلوچ کے حالاتِ زندگی، خدمات اور افکار و نظریات پر مشتمل ہے، جو کم و بیش چھے دہائیوں سے کراچی کے علاقوں رنچھوڑ لائن اور لیاری میں سیاسی و سماجی شعور کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔

کتاب کے آغاز میں اُس تقریب کا احوال ہے، جو25 اکتوبر 2023ء کو آرٹس کاؤنسل، کراچی میں لالہ حسین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر سجائی گئی۔ اِس حصّے میں18مقرّرین کی تقاریر سے اقتباسات دئیے گئے ہیں۔ پھر لالہ حسین سے کیا گیا ایک انٹرویو ہے، جو ڈاکٹر زین، ماجد فرید اور ظہیر گزدر نے کیا تھا۔ 26 صفحات پر مشتمل اِس انٹرویو میں لالہ حسین کی ذاتی زندگی اور برادری سے متعلق معاملات کا بہت تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے، جب کہ اُن کی سیاسی زندگی کے بھی کئی پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔ 

تاہم، لالہ حسین کی سیاسی سرگرمیوں اور افکار و نظریات کی مفصّل تفصیلات اگلے انٹرویو میں ہے، جو پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اور پروفیسر سہیل سانگی نے کیا۔ چوں کہ انٹرویو لینے والوں کا شمار بائیں بازو کی سیاست کے ماہرین اور کلیدی تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے، تو یوں یہ انٹرویو سے بڑھ کر ایک مکالمے کی صُورت اختیار کر گیا، جس میں پاکستان کی طلبہ سیاست، این ایس ایف، ایّوب، فاطمہ جناح الیکشن، بزنجو خاندان، نیپ، پیپلز پارٹی، مفتی محمود، نہرو، قوم پرستی کے مختلف رجحانات، ایم آر ڈی، روسی چینی بلاکس، کمیونزم، انقلابِ فرانس، کیوبا، نیلسن منڈیلا، ادب، دانش وَروں کی بیٹھکیں، گرفتاریاں، پولیس چھاپے، نظریاتی بحثیں، غرض کہ پندرہ، بیس صفحات میں ایک جہان آباد ہے، جس کے مطالعے سے جہاں مختلف واقعات سے آگاہی ملتی ہے، وہیں قاری کی سوچ و فکر کے نئے زاویے بھی متعیّن ہوتے ہیں۔

اگلے صفحات پر لالہ حسین کے میر غوث بخش بزنجو، ڈاکٹر شیر افضل ملک اور ڈاکٹر محبوب سے متعلق مضامین ہیں۔ کتاب کے آخری حصّے میں لالہ حسین پر تحریر کردہ16مضامین شامل ہیں۔ مضمون نگاروں نے اُن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا نہایت جامعیت و خُوب صورتی سے ذکر کیا ہے اور تمام افراد اِس نکتے پر متفّق نظر آئے کہ لالہ حسین نوجوان نسل کے رول ماڈل اور اپنے نظریات پر سختی سے کاربند رہنے والے شخص ہیں۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر توصیف احمد، پروفیسر سہیل سانگی، فاروق اعظم، ڈاکٹر زین العابدین اور اُن کے دیگر رفقا نے لالہ حسین جیسے سیاسی و سماجی کارکن کو اُن کی زندگی ہی میں کتاب کی صُورت خراجِ تحسین پیش کرنے کا اہتمام کیا، وگرنہ ایسے کاموں کے لیے دنیا سے رخصتی کا انتظار کیا جاتا ہے۔