• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے دو بجے اچانک انعام صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ اُنہیں کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا اور ساتھ ہی سینے میں درد بھی ہورہا تھا۔ تب گھر پر صرف اُن کی اہلیہ اور بیٹی موجود تھیں، بیٹا کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہرگیا ہوا تھا اور رشتےدار گھر سے کوسوں دُور تھے۔

گاڑی گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی، لیکن اُسے چلانے والا کوئی نہ تھا۔ دفعتاً انعام صاحب کی اہلیہ کو یاد آیا کہ ایک موقعے پر اُن کی پڑوسن، شاہینہ بیگم نے یہ کہتے ہوئے اُنہیں اپنا موبائل فون نمبر دیا تھا کہ ’’بھابھی! میرا نمبراپنے پاس محفوظ کرلیں۔

انسان کو کسی بھی وقت ضرورت پڑسکتی ہے۔‘‘ پہلے تو انہوں نے پڑوسیوں کو آدھی رات کو فون کرکے تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا، لیکن پھر اپنے میاں کی تشویش ناک حالت کا خیال آیا، تو ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ہی پڑوسن کا نمبر ملایا اور ساری صُورتِ حال بتائی۔

چند ہی لمحوں میں شاہینہ کے میاں دروازے پر گاڑی اسٹارٹ کیے کھڑے تھے اور پھر کچھ ہی دیر میں انعام صاحب اسپتال میں موجود تھے، جہاں ڈاکٹر نے چیک اَپ کے بعد دوائیں دے کراُنہیں گھر بھیج دیا۔ اِس نازک گھڑی میں فوری مدد کرنے پر انعام صاحب اور اُن کی اہلیہ اپنے پڑوسیوں کے ممنونِ احسان تھے۔ دونوں اُن کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتے اور اُن کے دِلوں سے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے لیے دُعا ہی نکلتی۔

سچ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں سب سے پہلے پڑوسی ہی کام آتے ہیں اور اِسی لیے ’’ہم سایہ، ماں جایا‘‘ جیسی ضرب المثل معروف ہے۔ قیام یا سفر کے دوران رفقاء کا حُسنِ سلوک بلند انسانی اقدار میں سے ایک ہے۔ ہرچند کہ ہم اپنے ہم سایوں کا انتخاب خُود نہیں کرتے، لیکن ہماری عُمر کا ایک بڑا حصّہ پڑوسیوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی پڑوس کی دُنیا شروع ہو جاتی ہے۔ صبح و شام ہمارا اپنے پڑوسیوں سے آمنا سامنا،سلام دُعا ہوتی ہے۔

ہمارے بچّے پڑوسیوں کے بچّوں کے ساتھ مل جُل کر پڑھتے لکھتے، کھیلتے کودتے ہیں۔ نیز، دیگر کئی معاملات اوراخراجات میں بھی پڑوسی ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں تو پڑوسیوں میں اتنی قُربت ہوتی تھی کہ ایک آنگن سے غم و خوشی فوراً ہی دوسرے آنگن تک پہنچ جاتی، پلک جھپکتے سب ایک ہی آنگن میں جمع ہوجاتے۔ اگر کسی کے گھر کوئی خاص ڈِش بنتی، تو پڑوسیوں کے ہاں ضرور بھیجی جاتی۔ 

گلیاں، چوبارے، بیٹھکیں، محفلیں پڑوسیوں کے دَم قدم ہی سے آباد ہوتی تھیں۔ کسی گھر میں شادی بیاہ یا کوئی اور تقریب ہوتی، تو پڑوس سے اچّھے برتن، بستر، کمبل اور تکیے وغیرہ بھی مل جاتے۔ ایک گھر کی شادی پورے محلّےکی شادی ہوتی تھی اور ذمّے داریوں میں سب کا حصّہ ہوتا تھا، لیکن پھر پیسا کیا آیا، دُنیا ہی بدل گئی۔ 

رویّے، اخلاقیات، رجحانات بہتر ہونےکی بجائے بدتر ہوتے چلے گئے۔ ہر شخص اپنی دُنیا میں مگن ہوگیا۔ مالی مفادات کا حصول ہی زندگی کامقصد بن کررہ گیا۔ نتیجتاً، اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ناموں تک سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ گھر کے سامنے گاڑی پارک کرنے سے لے کر بچّوں کے کھیل کود پر جھگڑے روز کا معمول بن چُکے ہیں۔ 

اِسی طرح سفرمیں، چاہے وہ مختصر ہو یا طویل، بذریعہ بس ہو یا ہوائی جہاز، رفقاء کا خیال رکھنے کی بجائے اُن سے نہ صرف مغائرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، بلکہ اکثراوقات اذیّت بھی پہنچائی جاتی ہے۔ البتہ بعض مسافر بہت بااخلاق بھی ہوتے ہیں، جو دورانِ سفرہم راہیوں کی چھوٹی، بڑی ضروریات کا خیال رکھتےہیں۔ ویسےاگر بسوں، ریل گاڑیوں وغیرہ کے سفر میں یہی رویہ عام ہوجائے، تو سب کے لیے کس قدر آسانی ہوجائے۔

دینِ اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر ہر شعبے اور پہلو سے متعلق واضح ہدایات دی ہیں۔ اگر صرف پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے بات کی جائے، تو سورۂ نساء میں اللہ تعالی نے پڑوسیوں کی مختلف اقسام بتائی ہیں، جن میں مستقل پڑوسی، ہم سفر اور تھوڑی دیر کے لیے رفاقت اختیار کرنے والے شامل ہیں اور ان سبھی سے اچّھے سلوک کا حُکم دیا گیا ہے۔ اِسی طرح ہمارے پیارے نبی، حضرت محمدﷺ نے اپنی دیوار، پڑوسی کی دیوار سےبلند کرنے سے منع فرمایا ہے کہ پڑوسی کے گھر جانے والی ہوا میں رُکاوٹ پیدا نہ ہو۔

ایک موقعے پر پڑوسیوں کے حقوق کو مفصّل انداز میں بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ یہ کہ جب وہ تم سے مدد مانگے، مدد کرو اور جب قرض مانگے، قرض دو اور جب محتاج ہو، تو اُسے دو اور جب بیمار ہو، تو عیادت کرو اور جب اُسے بھلائی پہنچے، تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے، تو تعزیّت کرو اور وفات پا جائے، تو جنازے کے ساتھ جاؤ اوراُس کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت بلند نہ کروکہ اُس کی ہوا روک دو اوراپنی ہانڈی کی خوش بُو سے اُس کو ایذا نہ دو، مگر اُس میں سے کچھ اسے بھی دو اور پھل خریدو، تو اُسے بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو، تو چُھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچّے پھل لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچّوں کو رَنج ہو گا۔ 

تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اُس کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں، جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے۔‘‘صحابۂ کرام کہتے ہیں کہ’’اللہ کے نبیؐ نےاتنی کثرت سے پڑوسیوں کا خیال رکھنے کا حُکم دیا کہ ہمیں لگتا تھا کہ پڑوسی کے لیے وراثت میں شرکت کا حُکم بھی آجائے گا۔‘‘

تاہم، پڑوسی نہ جائیداد میں حصّےدار ہے اور نہ مال میں۔ وہ صرف اچّھے رویّوں اور حُسنِ معاملہ کا طلب گار ہے۔ تو جہاں بھی رہیں، اپنے ہم سایوں کا خیال رکھیں کہ دُنیا کو جنّت بنانےاور آخرت میں جنّت پانے کا یہ بھی ایک بہترین طرزِ عمل ہے۔