اگر ہم چند چیزیں چھوڑ دیں اور چند چیزیں اپنا لیں تو ہم بہترین قوم بن سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں جھوٹ سے جان کون چھڑوائے؟ جھوٹ کسی شہر یا صوبے کا قیدی نہیں، ہر جگہ بولا جا رہا ہے، حالت تو یہ ہے کہ مقدس عبادت گاہوں میں بھی لوگ ایک دوسرے سے عادتاً جھوٹ بول دیتے ہیں، اب تو جھوٹ اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ جھوٹ عمر کے ہر حصے کے لوگ بولتے ہیں۔ کیا بچے، کیا جوان، عورتیں تو کیا بوڑھے،سب جھوٹ کی ڈگر پہ چل رہے ہیں۔ جھوٹ سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، مثال کے طور پر آج کل لوگ اپنی باتوں سے مکر جاتے ہیں تو گویا جھوٹ کی یہ بھی ایک قسم ہے، لوگ منافقت کرتے ہیں اور منافقت کو اپنی چالاکی کا نام دیتے ہیں، کسی کی سادگی پر ہنستے ہیں اور اپنی چکر بازی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں وعدوں کی پاسداری کا بھی احساس نہیں ہے، اگر ہم وعدوں کی پاسداری کا احساس کر لیتے تو یہ بھی بڑی بات تھی۔ ہمارے ہاں اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کرنا، عادت بن چکی ہے، اب کھانے پینے کے لئے غیر ملاوٹ شدہ چیزیں ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے، اصل دوائیاں بھی نہیں ملتیں ، ہم حقیقت پسندی سے کام نہیں لیتے، ہمارے ہاں خوشامدکا رواج عام ہو گیا ہے، یہاں چڑھتے سورج کے پجاری لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں دھوکے بازی، چوری چکاری عام ہے حتیٰ کہ مینڈیٹ کی چوری، نا انصافی بھی عام ہے، پولیس لوگوں کو تنگ کرتی ہے، ظلم کرتی ہے، جھوٹے مقدمات بناتی ہے۔ یہ تو ہو گئی سماج میں پھیلی برائیاں۔
ہم یہ چیزیں چھوڑ کر ان کی جگہ اور چیزیں اپنا لیں تو ہمارا معاشرہ بہتر ہی نہیں مثالی معاشرہ بن جائے گا، مثلاً ہم عہد کریں کہ پوری قوم جھوٹ نہیں بولے گی کیونکہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے، ہمیں بحیثیت مجموعی منافقانہ روش بھی چھوڑ دینی چاہئے کیونکہ ہمارے منافقانہ رویوں کا نقصان ملک و قوم کو ہوا ہے، ہمیں اپنے وعدوں کی پاسداری میں مثالی ہونا چاہئے، ہمیں اپنے حلف کا پاس رکھنا چاہئے، ہمیں بد دیانتی چھوڑ دینی چاہئے، ہمارے معاشرے میں حرام خوری عام ہے، معاشرے سے حرام خوری کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں معاشی بد عنوانی کا چلن بالائی سطح سے نیچے تک آتا ہے، اس لعنت سے بھی جان چھڑا لینی چاہئے۔ ہمیں سرکاری عہدوں کو اتنا بھی طاقتور نہیں بنانا چاہئے کہ وہ اپنی دھونس سے سب کچھ کر گزریں
ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے سرکاری اہلکار بڑے بڑے کرتوت کر جاتے ہیں، ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انصاف بھی نہیں ، ہمارے معاشرے میں ملاوٹ کرنے والے انسانی صحت سے کھیلتے ہیں اور انہیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی، اگر انہیں شرم نہیں آتی تو ہمارے ہاں قوانین کس مرض کی دوا ہیں؟ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ یہاں دوائیاں بھی جعلی ملتی ہیں، دوائیاں بنانے والے تمام قوانین کو روند کر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور سماجی برائی اقربا پروری کی صورت میں ہے، یہی اقربا پروری میرٹ کی کشتی کو دریا برد کرتی ہے، ہمیں سونے جاگنے کے اوقات ٹھیک کرنا ہوں گے، معاشرے میں برائی بڑھتی جا رہی ہے کہ لوگ دیر سے سوتے ہیں اور دوپہر کو اٹھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس میں تاجر طبقے کے علاوہ حکمرانوں کا بھی قصور ہے، دنیا بھر میں پانچ چھ بجے دکانیں بند ہو جاتی ہیں تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟
آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ راتوں کو جاگنے والے اور دن کو تاخیر سے اٹھنے والے کن خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کی نہ صرف مجموعی طور پر عمریں کم ہوتی ہیں بلکہ قومی تعمیر و ترقی میں ان کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان برائیوں کے حوالے سے سخت قانون سازی کریں، یہ قانون سازی صرف کاغذوں میں نظر نہ آئے بلکہ اس پر عمل ہوتا ہوا دکھائی دے۔ اب یہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ پروٹوکول کی بیماری ختم کریں، ریاست اپنے بچوں کے لئے تعلیم اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کو آسان کرے، شاید حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کے عام طبقات کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہو چکے ہیں، وہ ہر بچے پر سالانہ بیس پچیس لاکھ کیسے خرچ کریں؟ اسی طرح صحت کی سہولتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، سرور ارمان یاد آ گئے کہ
روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں
بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی
ہر کلائی، ہر حقیقت، ہر تمنا، ہر وفا
آشنائے حلقۂ زنجیر کر دی جائے گی