پی ٹی آئی جس طرح ہوا کے بلبلے کی طرح نمودار ہوئی تھی اب اسی طرح زوال کا شکار ہورہی ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس جماعت کے بانی کی سوچ سیاسی رہی ہے نہ ہی کوئی اصول ہیں۔ پی ٹی آئی کےرہنماؤں کوصبح کامعلوم نہیں ہوتا کہ پارٹی کا کیا پروگرام ہوگا لیکن اس سے بڑھ کریہ بھی پتہ نہیں وہ صبح اس پارٹی میں رہیں گے بھی یا صبح کسی کو ذلت کے ساتھ پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ پارٹی یوں توکئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے لیکن اس وقت وکلاء گروپ جس کو بشریٰ بی بی کی حمایت حاصل ہے وہ سب سے آگے ہے۔ صوابی جلسہ سب نے دیکھا کہ تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے بری طرح ناکام ہوا، پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت اور پہلے سے موجود رہنماؤں میں اختلافات تو واضح ہیں لیکن پنجاب میں تو نہ قیادت ہے نہ کارکن ہیں۔ پی ٹی آئی اب اسلام آباد تک محدود ہوگئی جس پر ’’حمایت‘‘ یافتہ وکلاء گروپ حاوی ہے۔ باقی قیادت بمع چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کواڈیالہ جیل سے نئے احکامات کا علم بھی اسی گروپ کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہم نےکبھی بھی کسی جماعت کایہ انجام نہیں دیکھا ہے۔
تحریکیں اصولوں پرکھڑی ہوتی اور چلتی ہیں لیکن اصولوں کو نیلام کرنیوالی تحریکیں ماضی کی داستان بن جاتی ہیں اور یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔ پی ٹی آئی کمپرومائزڈہوچکی ہے۔ کارکنان تو ویسے ہی رل گئے۔ غور کریں کہ26نومبر کی فائنل کال کو آخری معرکہ قرار دینے والے، کفن ساتھ لانے کے نعرے لگاکر کارکنوں کو اکسانے والے اور عمران خان کو ساتھ لے کر جائیں گے یا یہاں سے ہمارے جنازے واپس جائینگے کے دعوے کرنے والوں کو دنیانے دیکھا کہ وہ توجوتیاں بھی چھوڑ کر میدان سے فرار ہوگئے۔ اس پارٹی کے فرنٹ لائن پر تربیت یافتہ تخریب کار ہیں جو پولیس اور ریاست پر حملہ کرتے اور شہیدوں کی بے حرمتی کرتے ہیں اس طرح پی ٹی آئی کی بلی تھیلی سے باہر آگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ اس جماعت کاسیاست، نظریہ اور اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ،شیر افضل مروت جو ایک نظریاتی کارکن کے طور پرجانے جاتے تھے، پارٹی کے لئے ہرقسم کی قربانی دی، بانی کے کسی کیس کی کوئی فیس نہیں لی جبکہ بعض توان کیسوں کی وجہ سے مالامال ہوگئے۔ ایسے مخلص، بے لوث اور نظریاتی کارکن کو جس طرح بے آبرو کرکے پارٹی سے نکالا گیا اس کو اس جماعت کی بےشرمی اور ذاتی مفادات کے لئے ایسے کارکنان کوقربان کرنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہی کچھ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے ساتھ ہورہا ہے کیونکہ ان کی موجودگی بشریٰ بی بی کو گوارہ نہیں۔ اس پارٹی میں گروپ بنانے کی ابتدا بھی ان ہی نے کی اور چونکہ وہ پارٹی میں سب سے مضبوط ، موثر اور طاقتور شخصیت ہیں اس لئے حکم بھی ان ہی کا چلتا ہے بانی تو صرف تائید کرتے اور منظوری دیتے ہیں۔ ابھی پارٹی سے مزید لوگوں کو نکالا جارہا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ باوثوق ذرائع نے بتایا ہے کہ کئی لوگ خود پارٹی کو چھوڑ جائیں گے ان کے دوسری جماعتوں سے معاملات چل رہے ہیں۔خیبرپختونخوا میں سرکاری محکمے شدید بدنظمی کا شکار ہیں۔ پولیس ، اساتذہ،صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین مایوس ہیں۔ رشوت ، سفارش اور کرپشن ایک خاص لیول پرہونے اور وہاں سے سرکاری ملازمین کو احکامات جاری ہونے اور دباؤ ڈالنے سے صوبے میں گورننس کا ستیا ناس ہورہا ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مشیروترجمان بیرسٹر سیف نے بھی پارٹی رہنماؤں کی تنقید ومخالفت کی وجہ سے اپنا استعفیٰ وزیر اعلیٰ کو بھجوادیا جسے منظور نہیں کیا گیا۔ خیبر پختونخواکی صوبائی حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں صحت کے شعبہ کی37پرانی اسکیموں کے ترقیاتی پروگرام ختم کردئیے ان اسکیموں میں ہری پور، بونیر، مانسہرہ، چارسدہ میڈیکل کالج، خیبر انسٹی ٹیوٹ آف نیوروسائنسز اینڈ کلینکل ریسرچ(کنار) مردان، ڈویژنل سطح پر پیتھالوجی لیبارٹریز اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی ( کے ایم یو) انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز مٹہ سوات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حذف شدہ28اسکیمیں ایسی ہیں کہ ان پراب تک ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسکیموں میں ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی سپلائی شامل ہے جو انتہائی ضروری ہیں۔یہ تو کے پی حکومت کی کارکردگی کی مختصر ترین روداد ہے جو بیان کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس صوبے میں تعلیم ، صحت،پینے کے صاف پانی، مواصلات ، تھانہ اور پٹوارکلچر سمیت کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو بدنظمی اور بدعنوانی سے پاک ہو۔کے پی کے میں طویل عرصہ پر محیط پی ٹی آئی کی کسی حکومت کے پاس کارکردگی،صوبے کی ترقی، عوام کوسہولیات کی فراہمی اور امن وامان کی بحالی کا کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس کو وہ بطور مثال پیش کرسکیں۔بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت مخالفت گرینڈ الائنس بنانے کی بیل بھی تاحال منڈھے نہیں چڑھائی جاسکی۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت جے یو آئی کے بارے میں ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا اس الائنس میںشامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو جے یو آئی کے کارکنان وہ القابات کبھی نہیں بھول سکتے جو بانی پی ٹی آئی ہر تقریر میں مولانا فضل الرحمان جیسے معروف عالم دین اور بڑے مدبر ومحترم سیاستدان کے بارے میں دہراتے رہتے تھے اسلئے کارکنان پی ٹی آئی کیساتھ کسی قسم کے اتحاد کو قبول نہیں کرینگے۔ دوسری وجہ یہ کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما با اختیار نہیں ہے تمام اختیارات کا منبع اڈیالہ جیل میں ہے اور انکا کوئی بھروسہ نہیں کہ کس وقت کس بات یا فیصلے سے منکر ہوجائیں۔ اس صورتحال میں عید کے بعد تحریک چلانے کی باتیں محض کارکنوں کو دلاسہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر پی ٹی آئی نے یہ ایک اور غلطی کربھی لی تو انجام وہی عبرتناک ناکامی ہوگا جیسے کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔