• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر نے کہا تھا:

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

بیمار کی رات کیسے گزرتی ہے، بیمار جانتا ہے یا اس کا خدا۔ طبیبوں میں بہت اچھے بھی ہیں او رایسے بھی جو بھاگتے چور کی لنگوٹی بھی ہتھیا لیتے ہیں۔

علاج آپ ایلوپیتھی یا ماڈرن میڈیسن سے کرائیں، ہومیو پیتھ یا کسی حکیم سے، اصول یہ ہے کہ اسے کسی قابلِ اعتماد یونیورسٹی سے کوالیفائیڈ ہونا چاہئے۔ جو کوالیفائیڈ نہیں، وہ کوئی معالج نہیں۔ ایسے معالج مارکیٹ میں سرگرم ہیں، جن سے اگر آپ ہڈیوں، مسلز، نروز اور خون کی نالیوں پر سو سوال پوچھیں، ایک کاجواب نہ دے سکیں۔ دل کے کتنے والو ہوتے ہیں؟ کس طرح وہ کام کرتے ہیں؟ جواب ندادر۔ وہ نظامِ انہضام کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کرتے۔ کہیں گے تو یہ کہ فلانے کا معدہ خراب تھا، میری پھکی نے ٹھیک کر دیا۔ اس کے بعد دل، دماغ اور گردے اپنے آپ ٹھیک ہو گئے۔

ماڈرن میڈیسن یاایلو پیتھی میں ہر چیزکے سخت سٹینڈرڈز قائم ہیں۔ بے حد سخت امتحان، جس میں ایک بڑی تعداد فیل ہو جاتی ہے۔ جس نے ایک دفعہ داخلہ لینے کی نیت بھی کر لی تو ڈگری اس طرح اس کا پیچھا کرے گی، جیسے آدمی کا رزق اور اس کی موت اس کا پیچھا کرتی ہے۔

سرجری صرف ایلو پیتھی میں ہو رہی ہے۔ بلڈ ٹیسٹ، شعاعوں اور کیمرے سے جسم کے اندر کا جائزہ لینے کے ٹیسٹ صرف ایلوپیتھی میں استعمال ہو رہے ہیں۔ سپیشلائزیشن صرف ایلوپیتھی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کینسر کا علاج کر رہا ہے تو مردانہ کمزوری کے کشتے نہیں بیچے گا۔

دوسری طرف دینی بنیادوں پہ علاج کرنے والے ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ رسالت مآب ﷺنے دل کی بیماری کے لیے عجوہ استعمال کرائی۔بے شک رسالت مآب ﷺسے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ساتھ مگر وہ یہ بھی کہیں گے کہ جدید طب پہ لعنت بھیجو۔ حکم دیں گے کہ بند رگ کھلوانے کے لیے سٹنٹ نہ ڈلواؤ۔ ایسا حالانکہ ہرگز نہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے کسی کو سٹنٹ منع کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹیکنالوجی تھی ہی نہیں تو اس پر آپ ﷺنے حکم بھی نہیں لگایا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ جدید علاج نہ کرواؤ، انہیں چاہئے کہ سفر بھی پھر گھوڑے پر کریں۔ تلوار سے جنگ لڑیں۔پھر وہ کذاب ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ نبض سے وہ تمام بیماریوں کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ اس سے بڑا جھوٹ طب کی تاریخ میں کبھی نہیں بولا گیا۔ بولنے والے کون ہیں، جنہوں نے پوری زندگی کبھی کسی درسگاہ میں قدم نہیں رکھا۔

یہ سب تو اپنی جگہ، اب کچھ کوالیفائیڈ ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے ایک نیا کام شروع کیا ہے، جو پہلے صرف حکیم کیا کرتے تھے۔ مریض سامنے بٹھا لیتے ہیں اور وہ طوطے کی طرح بولنا شروع کر دیتاہے۔ لبِ لباب یہ ہوتاہے کہ تمام ڈاکٹرز نے لاعلاج قرار دے دیا تھا یا آپریشن تجویز کیا تھا، میری دوا سے، اور دوا سے بھی نہیں میری تجویز کردہ غذا سے راتوں رات وہ ٹھیک ہو گیا۔

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

حالانکہ جو شخص طوطے کی طرح رٹا ہوا آموختہ پڑھ رہاہے، وہ دراصل اس ڈاکٹر کا پٹھو ہے۔ ایسے ہی ایک ڈاکٹر نے جب کافی مال اکٹھا کر لیا تو پھر ایک جم بنا لیا، جس میں چست لباس میں مرد اور خوبصورت عورتیں ایک ساتھ ایک ساتھ اچھل کود کرتے نظر آئے۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے، حالانکہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ آگے اسی ڈاکٹر نے روحانی معالج بھی بننا ہے۔ ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے،چند ایلوپیتھک ڈاکٹر اب روحانی علاج کر رہے ہیں۔ لبِ لباب یہ ہوتاہے کہ علاج ناممکن تھا لیکن روحانیت کے بل پر مریض ٹھیک ہو گیا۔

جب ایک ماڈرن ڈاکٹر خود یہ بات کہتاہے کہ لا علاج بیماری کسی وظیفے سے ٹھیک ہو گئی تو دراصل مطلب یہ ہوتاہے کہ میرے ظاہری حلیے پر نہ جاؤ۔ میں روحانی طور پربہت پہنچا ہوا ہوں۔ ڈاکٹر جب خود دم درود پہ اتر آئے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ میڈیکل سائنس محض ایک بکواس ہے۔ یہ میری نظر میں سب سے زیادہ خطرناک رجحان ہے۔ اس لیے کہ دعا سے لا علاج بیماری ٹھیک ہونا استثنیٰ ہے، اصول نہیں۔دعا سو لوگ مانگیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس کی قبول ہو اور کس کی نہیں۔ دوسری طرف دوا کیمیکلز پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیمیکل سب کے لیے یکساں ہوتاہے۔ آپ نے دس سال میڈیسن پڑھی ہے، وظائف نہیں۔

قصہ مختصر شاعر کے الفاظ میں:

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ رسالت مآب ﷺنے یوں بیان کیا تھا:آدم زاد کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔پیٹ ایلون مسک کا بھی نہیں بھر سکا۔ زمین لوٹ کے وہ مریخ کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔

تازہ ترین