• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست پاکستان کئی محاذوں پر نبردآزما،’’سیاسی استحکام‘‘ کا باجہ بج چکا ہے۔ مستقبل قریب میں دور دور تک استحکام نصیب میں نہیں۔ استحکام کا لٹمس ٹیسٹ (Litmus Test )، ایک فقرے پر موقوف، ’’کومتِ وقت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں؟، موجودہ نظام پنپ پائیگا، کتنی دیر چلے گا‘‘؟۔ 70 سالوں سے مملکت کی ہر حکومت، ہر نظام اِن دو سوالوں کی زد میں ہے۔ خطہ ارضی میں کتنے ممالک جہاں سوال کہ 'حکومت مدت پوری کریگی؟ نظام چل پائے گا؟'۔ مملکت خداداد چاروں اطراف سے گھیرے میں ہے۔ بھارت ازلی دشمن، 77 سال سے ہماری بیخ کنی میں مصروف ہے۔ شروع دن سے اَزبر کرایا گیا، امریکہ ہمارا دوست، ’’ہوئے تم دوست جسکے اسکا دشمن آسماں کیوں ہو‘‘۔ آج بھارت اور امریکہ تزویراتی شراکت دار، وطن عزیز دونوں کو بھگت رہا ہے۔ پہلی 4 دہائیوں سے سرد جنگ میں ہم بطور فرنٹ ریاست، اگلی 3دہائیاں امریکی مطلق العنانی کی زد میں، امریکی احکامات کے تابع ، ''Either You're With Us Or Against Us'' ، ہم نے بلا چوں و چراں غلامی قبول کئے رکھی۔ پچھلے دس سالوں سے امریکہ نے چین روس کے پاکستان میں اثرورسوخ کو محدود بلکہ معدوم رکھنے میں ہر حربہ ، جتن استعمال کیا ہے ۔ کم و بیش 70سال سے امریکی خصوصی نگاہِ کرم ، مملکت کیلئے سوہان روح بن چکی ہے ۔ پچھلی دو دہائیوں سے ’’امریکہ بھارت تزویراتی گٹھ جوڑ‘‘ پاکستان کی چولیں ہلا چکا ہے ۔ امریکی مفاد کہ چین اور روس بحرہند سے دور رہیں ۔ بد قسمتی ! اسی تناظر میں پاکستان ، افغانستان ، ایران تینوں ممالک کاگناہ ، انکا جغرافیہ ہے ۔ پاکستان اور ایران اپنے طور چین اور روس کو بحرہند تک رسائی دینے میں خودکفیل ہیں ۔پاکستان ،افغانستان اور ایران کو تہس نہس کرنا اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔

یوں تو افغانستان ایک Dysfunction ریاست، بظاہر حکومت قائم ، مکمل طور پر امریکی رحم و کرم پر بے بس و لاچار و بے یارو مددگار بنا رکھا ہے۔ طالبان حکومت کو کسی نہ کسی مد میں امریکہ ہر سال 300 ملین ڈالرز ادا کر رہا ہے تاکہ نظر رکھ سکے۔ امریکہ کا انخلا سے پہلے افغانستان میں داعش کا ٹھکانہ یقینی بنانا بھی اسی مد میں ہے۔ حالیہ شام میں انقلاب، طالبان حکومت کیلئے چشم کشاوارننگ ہے۔ امریکی اشارہ ابرو، داعش " طالبان حکومت پر پل پڑیگی۔ اگر شام کی منظم فوج، ایئر فورس، ٹینک، اسلحہ گولہ بارو چار دن کی مار تو طالبان حکومت کیونکر دو دن ٹھہر پائیگی۔ آنیوالے دنوں میں اگر طالبان حکومت نے امریکی اسکرپٹ کی عملداری میں پس و پیش کیا تو پھر مشتری ہوشیار باش، کوئی احمد الشرع ابومحمد جولانی جیسا داعش، ISIS،BLA ، TTP کیساتھ حکومت پر دھاوا بول کر اصل اور حقیقی اسلامی نظام قائم کر دیگا ۔

ایران بارے اسرائیل اور امریکی عزائم طشت ازبام ، ہر زباں زدِعام ہیں ۔ امریکی اسرائیلی دعویٰ کہ ایران کو زمین بوس کرنے کا ہوم ورک مکمل، اسرائیلی ممکنہ حملہ ایٹمی جنگ یا ایران کو دیگر مہلک ہتھیاروں سے شکست ہوئی تو ہر دو صورتوں میں تباہی پاکستان کی سرحد عبور کرے گی ۔ بحرہند عملاً امریکی تسلط میں، امریکہ، بھارت، آسڑیلیا، جاپان نے 20 سال پہلے ایک QUAD سمجھوتا کیا ، جس سے بحرہند میں امریکہ بلاشرکت غیرے تھانیدار بن چکا ہے۔ امریکی 5th اور 7th فلیٹ (ہر فلیٹ میں 70 بحری بیڑے ) ہرقسم کے مہلک ہتھیاروں سے لیس بمع ایک چوتھائی نیوکلیئر ہتھیار بحرہند میں بحرین سے لیکر جاپان تک تعینات ہیں۔ چین کی روزانہ تیل کی درآمدات تقریباً 12 ملین بیرل ہے ، جو " آبنائے ہرمز اور آبنائے مالاکا " سے گزرتی ہیں ۔ امریکہ تیل سپلائی کسی وقت بھی بند کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ برسبیل تذکرہ ، بحیرہ عرب میں واقع گوادر بندرگاہ کی اہمیت کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ چین اور روس کو گرم پانی تک رسائی ، گوادر ہی نے تو فراہم کرنی ہے ۔ فلسطین ، ساؤتھ چائنا سمندر ، یوکرین وغیرہ میں جاری جنگوں کا پاکستان کو بالواسطہ خطرہ لاحق نہیں ، البتہ بلاواسطہ گہرے اثرات مرتب ہونگے ۔ اہم کہ CPEC پر دوبارہ کام شروع ہونے کی دیر کہ پاکستان میں دہشتگردی میں شدت آچکی ہے۔ دورائے نہیں یہ ’’جو دہشتگردی ہے ، اسکے پیچھے بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ ہے ‘‘، سی پیک دل یزداں کا کانٹا، اسکو بند کروانے میں 2014ءہی سے نواز شریف حکومت کی چولیں ہلانے، نواز سیاست کو تہہ تیغ کرنے کے سارے جتن کر ڈالے۔ بالآخر عمران خان کی حکومت آتے ہی پلک جھپکتے وزیر تجارت رزاق داؤد کا پہلا حکومتی حکم نامہ ، ’’ہم سی پیک کو فی الفور بند کر رہے ہیں‘‘۔ آج پاکستان ماسوائے چین چاروں اطراف خطرات میں گھر چکا ہے کہ CPEC منصوبے پر تیزی سے کام شروع ہے۔ مملکت کا ایک سانحہ اور بھی، امریکہ نے جب بھی پاکستان کو غیرمستحکم کیا ، ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کا ہراول دستہ بنی۔ لیاقت علی خان قتل سے لیکر عمران خان کی معزولی تک ( صحیح یا غلط )، جہاں امریکی مداخلت بارے قیاس آرائیاں ختم نہ ہونے میں ، وہاں اسٹیبلشمنٹ کا نقش پا موجود ہے۔ محمد علی بوگرا تا شہباز شریف ، مملکت کی تاریخ میں ایک وزیراعظم نہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار تک پہنچا ہو، وطنی سیاست ہر لمحہ انکے قبضہ استبداد میں ہے۔ باریک بینی اتنی ، ملکی حالات آج ایسے گنجلک کہ استحکام یاعدم استحکام دونوں دشمن کیلئے آسودگی ہے ۔ صدقِ دل سے سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت امریکی اثر و رسوخ سے باہر ضرور ہے مگر استحکام اور بہتری لانا ان کے وارے میں نہیں ہے ۔ 2015 سے کالموں میں درجنوں دفعہ دُہرایا کہ وطنی تقدیر بدلنے کا اکسیر اعظم (PANACEA ) سی پیک منصوبہ ہے ، ساتویں آسمان تک پہنچائے گا ۔ ہماری مقتدرہ ، اپوزیشن ، ادارے سب کی ترجیحات اور ارادے فرق، انکی پہلی اور حتمی ترجیح سیاسی نظام اپنے تسلط میں رکھنا ہے۔ ہر بندہ بنفس نفیس مملکت کو اپنے تسلط میں رکھ کر سیاسی استحکام کیلئے آرزو مندہے۔ ہمیشہ تکرار کی کہ چین کیلئے سی پیک انتہائی اہمیت کا حامل ، ہر صورت میں مکمل کریگا ۔ دوسری طرف امریکہ کسی صورت سی پیک بننے نہیں دیگا۔ شک نہیں کہ آج جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے امریکی بھارتی گٹھ جوڑ چین کی گوادر تک رسائی ناممکن بنا رہا ہے۔

ایک اور تقابل، چین کے مفاد میں ہمارا سیاسی استحکام ، پائیدار امن و عامہ اور خوشحالی ہے۔ جبکہ امریکہ کا مفاد عدم استحکام ، تہہ و بالا امن و امان اور اقتصادی زبوں حالی سے وابستہ ہے۔ مقصد عدم استحکام ، دہشتگردی اور اقتصادی بدحالی میں مملکت چین کیلئے ناقابلِ استعمال رہے۔ درحقیقت، سیاسی استحکام کے حصول کے بغیر پاکستان نہ تو چین کی حصہ بقدر جثہ خدمت کر سکتا ہے اور نہ ہی مستحکم معیشت اور امن عامہ رکھ سکتا ہے ۔ حل ایک ہی ! کاش تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، ادارے اپنی پہلی ترجیح پاکستان بناتے، اپنے ذاتی مفاد بغض و عناد کو پس پشت ڈالتے۔ جب تک سب باجماعت یکسو ہوکر مملکت کی فکر نہیں کرتے، اقتدار کی حرص و ہوس سے برات نہیں لیتے تو 16دسمبر 1971ء جیسے حادثہ کو مسترد (RULEOUT ) نہ کریں ۔ باقی رہے نام اللہ کا ۔

تازہ ترین