(گزشتہ سے پیوستہ)
نیشن بلڈنگ پراسس (تعمیر وطن) کا کوئی بھی اورکسی بھی سطح و شعبے کا ترقیاتی منصوبہ ہو اسکے انٹینڈڈ بینی فشریز (جن کی ترقی مقصود ہوتی ہے) بہرحال پوری قوم یا عوام الناس کی کوئی خصوصی و محدود شکل، سطح، قومی صوبائی، ضلعی و تحصیلی ،مقامی یا کسی شعبہ زندگی سے جڑے لوگ ہی ہوتے (اولین اسٹیک ہولڈر) ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ کسی بھی ملک میں جملہ اقسام و سطح پر ترقیاتی عمل کا آغاز عوام کی فلاح و ترقی کیلئےہوتا ہے۔ یہ ہی اس (ترقیاتی عمل) کا حتمی مقصد ہے لیکن اس کے حصول سے پہلے کے مراحل میں عام لوگوں کی شرکت، صحت مند اور نتیجہ خیز ترقیاتی عمل کیلئے ناگزیر ہے۔ ہر ڈویلپمنٹ آپریشن میں عوام کی اس لازمی شرکت کے طریق جسے ’’ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز‘‘کی باڈی آف نالج کی زبان میں ’’پارٹیسپٹری اپروچ‘‘ کہا جاتا ہے، کی عملی شکل یوں ہوتی ہے کہ:ترقیاتی عمل کو بلارکاوٹ تسلسل سے جاری رکھنے یعنی SUSTAINABLE DEVELOPNENT (ترقی جاریہ) کو یقینی بنانے کیلئے کسی بھی سطح و قسم اور شعبہ زندگی کے ترقیاتی پروگرام یا پراجیکٹ کی پالیسی اور قانون سازی اور عملدرآمد میں عوام (جن کی ترقی مقصود ہے) شرکت مقررہ اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ ایسے کہ بمطابق متعلقہ علم (ڈسپلن یا باڈی آف نالج) ناگزیر اولین اسٹیک ہولڈر کی شرکت کو ہر حالت میں عملاً اختیار کیا جائے۔ گویا عوام ہی ترقیاتی عمل کی منصوبہ بندی میں اولین اسٹیک ہولڈر (مفاد کے حامل) ہوتے ہیں۔ جو اصل میں عام لوگ یا کسی امتیاز یا خاص حوالے سے ان کی کوئی بڑی، درمیانی چھوٹی قسم ہوتی ہے۔ جیسے پوری قوم کسی صوبے، ضلع کے عوام، خواتین یا بچے و بزرگ، کسان و مزدور، اساتذہ، طلبہ، سرکاری ملازم، سروس پرووائیڈرز، تاجر و دکاندار و صنعت کار۔ سوال یہ ہے کہ مختلف النوع ترقیاتی منصوبوں میں یہ اولین اسٹیک ہولڈر تو کروڑوں، لاکھوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں تو انہیں قانون سازی اور عملدرآمد کے اہم اور حساس معاہدوں میں پارٹیسپٹری اپروچ کے علمی لازمے کے مطابق کیسے شریک کرایا جائے؟ بہت سادہ اور واحد (نوآپشن) جواب بمطابق آئین پاکستان، آزاد و غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کے مطابق منتخب ہونے والے ایوان ہائے نمائندگان کی شرکت کے ساتھ۔ وہی ترقیاتی عمل کے پروگرامز و پراجیکٹس کی چھتری، پالیسی و قانون سازی کی منتخب نمائندوں میں حتمی تشکیل اور ان ہی کی نگرانی میں عملدرآمد، اس کار عظیم (ترقیاتی عمل) میں عوام الناس کی بطور اولین اسٹیک ہولڈر کے عملی اور نتیجہ خیز شرکت ہے۔
قارئین کرام! پاکستان میں متذکرہ قومی علمی ضرورت پوری ہونے کو مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بڑے فیصد واضح کئے شدت سے مطلوب علم (پارٹیسپٹری اپروچ) کے اطلاق کا ریکارڈ عشروں پر محیط ہے۔ یہ بیڈ گورننس کی مجموعی کیفیت کے باثبوت حکومتی رویوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے، تاہم ایسا کبھی نہیں ہوا کہ منتخب حکومت اور اس کی تشکیل کی بنیاد، منتخب نمائندے کبھی اتنے متضاد و متنازع نہیں ہوئے، جتنے پاکستان کے جاری سیاسی و حکومتی اور مکمل بحرانی بن گئے نظام عدل میں ہوگئے ہیں۔ ’’وہ تو ہر الیکشن میں ہی متنازع ہوتے رہے‘‘ جاری مختلف النوع بحرانی حالت اور اس کے نتیجے میں مسلسل پیچیدہ ہوتا سیاسی و آئینی، عدالتی اور انتظامی بحران کی قبولیت کا کم ترین درجہ عوام الناس کی سطح پر بڑھانے کیلئے ترقیاتی پروگرامز و پراجیکٹس کی جارحانہ ابلاغی مہمات چلانے سے حصول نتائج کی تگ و دو جاری ہے۔لیکن حقیقی پارٹیسپٹری اپروچ ندارد ہے۔ یہ جو بیانیہ ہے کہ گزشتہ سب انتخابات کے نتائج کی آزادی، غیر جانبداری اور شفافیت کے حوالے سے متنازع ہی رہے ہیں، لہٰذا موجودہ متنازع ترین ایوان نمائندگان، ان کی بنیاد پر بنی حکومتیں اور ایوانوں کی حیثیت کو عوامی حالت و بے چینی و اضطراب کو یکسر نظر انداز کرکے سیاسی استحکام کیلئے مان لیا جائے۔ ترقیاتی عمل تو قدرے ثانوی ہوتا بعداب تو جمہوری عمل منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ 8فروری کے انتخابات نگران حکومتی اور الیکشن کمیشن کے تسلیم کئے نتائج کی عوامی عدم قبولیت سے بہت بلند درجے پر متنازع ہیں۔ محدود پیمانے پر یقیناً گزشتہ جزواً متنازع انتخابات بالآخر تسلیم ہو کرجمہوریت کی گاڑی چل پڑتی تھی، عوام اور ریاستی نیم جمہوری نظام جیسے تیسے انتخابی نتائج، 8 فروری والے کے مقابلے میں کئی گنا قابل قبول (ایٹ لارج) سے کام چلتا رہا۔ سو حکومت کے جائز و ناجائز ہونے کا سرٹیفکیٹ عوام اور اپوزیشن ہی دیتے رہے تو گزارا ہوتا رہا، اب ایسا نہیں ہے۔ الگ ہے کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کے بیانیے کو کنٹرولڈ میڈیا اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے منوانے کی حرکیات تیز تر اور حکومت چلانے کی ’’سعی‘‘ تادم لاحاصل ہے ۔ علم و جمہوریت اور آئین و حلف سے متصادم گورننس کے اس رویے پر غور کیا جائے مائنس عوام (اولین اسٹیک ہولڈر)کام نہیں چلےگا نہیں۔
خاکسار کے کالم کا خصوصی حوالہ تو اصل میں پنجاب میں زرعی ترقی کے پروگرام ’’سپر سیڈرز‘‘ کے حوالے سے ہے، وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز کا اخبارات میں شائع ہونے والا یہ بیان کہ:’’پنجاب میں سپرسیڈرز سے کروڑوں کی بچت، زرعی انقلاب آگیا‘‘ ناچیز نمائندہ اور متنازع حکومت کی بحث میں پڑے بغیر اس پروگرام کی حد تک کہ یہ بنیادی طور پر ترقیاتی پروگرام ہے۔ اور سپرسیڈرز پاکستانی زراعت میں یقیناً ایک انقلابی اختراع ہے، اور بندہ ’’زرعی ابلاغ‘‘ کا اسٹوڈنٹ اور DIFFUSION OF INNOVATION (اختراعات کے پھیلاؤ)کا حامی و مبلغ ، سو واضح کرتا ہے کہ شدت سے مطلوب ’’ڈویلپمنٹ اسٹڈیز‘‘ہی کے ایک اور انتہائی متعلقہ علم ہےجس کا اطلاق اس انقلاب آفریں پروگرام پر اس سے برآمد ہونے والے ترقیاتی عمل کو بلارکاوٹ جاری و ساری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے لازم ہوگا۔ یہ ہے کہ اس پروگرام پر مربوط ترقی کا اطلاق بھی لازم ہے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ کھیت مزدوروں کی اگر کوئی منتخب نمائندگی ہے تو اسے فیصلہ، قانون سازی اور عملدرآمد میں شریک کیا جائے، کھیت مزدوری میں بڑی اور اہم ترین ویمن لیبر فورس کی ہے، ملکی کل زرعی مزدوری میں 2023ءکے ڈیٹا کے مطابق حصہ 66 فیصد، جتنا بڑا ان کا حصہ، ان کی مزدوری کی حالت کا مظلومیت کی حدتک بدتر، یہ سوشل ڈویلپمنٹ میں ویمن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے بدترین صورتحال ہے انکی حالت زار (جسے آئین نو میں جلد واضح کیا جائیگا) میں تبدیلی لائے بغیر کوئی انقلاب زرعی شعبے میں کسی بھی طریق سے برپا نہیں ہو سکتا۔(جاری ہے)