’اُجالا بنایا جا سکتا ہے دھوپ نہیں۔ارسطو‘
گزشتہ ہفتے ہالینڈ میں ارسطو ڈے منایا گیا ملک کی تمام دانش گاہوں میں ارسطو کا دن کچھ اس انداز میں منایا گیا کہ طالب علموں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند سال قبل میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام ’’نوجوان اور ان کا تعلیمی مستقبل‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ہمارے پاس 18 کروڑ کی آبادی ہے انہی میں سے ہمیں البیرونی اور ابن سینا نکالنے ہوں گے۔
خدا جانے اس وزیر نے ارسطو کا نام کیوں نہ لیا جبکہ سوئے اتفاق ارسطو کی تاریخ پیدائش اسی دن تھی جس دن موصوف مندرجہ بالا خطاب فرما رہے تھے۔ ارسطو کی حکمت و دانش اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی فلاسفی، تعلیم و حکمت و دانش کو اس کے جنم دن پر دہرایا جائے۔ مقدونیہ کا سکندر یقیناً تاریخ کا ایک عظیم شہنشاہ ہے لیکن ایک مرتبہ اس کے منہ پر سرعام تھپڑ مار کر ایک معمولی حیثیت کے انسان نے حاضرین دربار کو حیرت زدہ کر دیا۔ تھپڑ کھا کر سکندر اعظم کی تلوار نیام سے باہر نہ آئی وہ صرف مسکرا دیا۔ یہ معمولی انسان تھا ارسطو جو سکندر اعظم کا اطالیق تھا۔ ارسطو طالیس کے معنی یونانی زبان میں فاضل کامل کے ہیں، شاید انہی معنی کے اعتبار سے اس کا نام پڑا جو اردو کے قالب میں ڈھل کر ارسطو بن گیا۔ محقق ابو الحسن علی بن ابو الحسن نے لکھا ہے کہ ’’ارسطو کے ماں باپ اس کے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ چنانچہ جب یہ بڑا ہوا تو اس نے باپ کے چھوڑے ترکے کو عیاشی اور شراب کی نذرکر دیا اور مفلس اور قلاش ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگا، ایسے میں ارسطو کے باپ کے دوست نے اس کو حکیم افلاطون کے سپرد کر دیا چنانچہ افلاطون نے ارسطو کو اپنے علم کی دولت سے سرفراز کیا۔ میر مبشر ابن قائد کا بیان ہے کہ جب افلاطون مجلس درس میں بیٹھتا اور اتفاق سے ارسطو کسی وجہ سے نہ آسکتا یا اسکے آنے میں دیر ہو جاتی تو اس وقت طلبہ افلاطون سےکسی مسئلے کو حل کرانا چاہتے تو افلاطون کہتا ’’تھوڑی دیر صبر سے کام لو باعقل آدمی کو آجانے دو‘‘۔ 20برس تک ارسطو افلاطون سے درس حاصل کرتا رہا جب افلاطون بلادستیہ کے سفر پر نکلا تو ارسطو بحیثیت خلیفہ درس و تدریس کرتا رہا۔ افلاطون کے واپس آنے پر ارسطو لوقیون چلا گیا وہاں اس نے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی جو کہ شین کے باغ میں واقعہ تھا۔ اب ارسطو کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی یونان کے بادشاہ فیلقوس نے اس کو انتہائی عزت و احترام سے بلوایا اور سکندر کی تعلیم پر مامور کیا جب سکندر ملک گیری کے خیال یا ہوس سے بلادستیہ سے آگے بڑھا تو ارسطو مطمئن ہو کر لوقیون چلا گیا۔
ارسطو نے علم منطق کے اجزا کو ایک خاص طریقہ اور سلیقہ سے مرتب کیا جس کے بعد ’’ارسطو معلم اول‘‘ اور ’’خاتم الحکمہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اس کی پیدائش کی طرح اس کی موت کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ اکثر کتابوں میں اس کی عمر 62 سال لکھی گئی ہے لیکن ابن ندیم بغدادی نے اپنی کتاب ’’الفہرست‘‘ میں 67سال اس کی عمر لکھی ہے مذہب کے بارے میں بھی مورخین کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حکیم بطلیمون نے لکھا ہے کہ وہ خدا پرست ہو گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارسطو کے ہاتھ پر بیعت کرنا یا خدا پرست ہونا محض الہام سے تھا چنانچہ اس طرح ارسطو کامذہب وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے بتوں کی پرستش سے کوئی دلچسپی نہ تھی جبکہ اس وقت ریاست میں بت پرستی کا زور تھا اس لیے وہ مذہب کے بارے میں کھل کر بات نہ کرتا تھا مشہور ہے کہ لوقیون میں ایک کاہن نے ارسطو کو کافر قرار دیا کہ وہ بتوں کو نہیں پوجتا تھا۔ اس کی موت کے بارے میں بھی مورخین کی ایک رائے نہیں ہے بعض اس کا دِق سے مرنا بتاتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ وہ اپنی آخری عمر میں ساحل سمندر پر مد و جزر کی حقیقت دریافت کرنے گیا تھا کہ موت نے اسکو اسی جگہ گلے لگا لیا۔ ایک روایت میں زہر کھا کر خود کشی کرنا بتایا گیا ہے۔ ارسطو کی موت کے بعد اہل وطن نے اس کی لاش کو تانبے کے ایک بڑے تابوت میں رکھ کر ارسطا طالیس میں دفن کیا اور اس مقام کو انہوں نے ’’دارالمشاورت‘‘ قرار دیا جہاں وہ بڑے بڑے اور اہم امور پر غور و خوض اور مشورہ کرتے۔ اس کے بعد جو رائے قرار پاتی وہ صحیح اور قابل تسلیم سمجھی جاتی۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ وہاں (دار المشاورت) ان کی عقل تیز، فکر صحیح اور ذہن پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ ارسطو کے احسانات نہ صرف اہل یونان پر ہیں بلکہ ساری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے اس کی قابل قدر کوششوں سے اہل یونان کے عادات و اخلاق بلند ہوئے جس سے باقی دنیا پر بھی اثر پڑا اور اس طرح آج جبکہ آمروں ڈکٹیٹروں اور شاہوں کی شہنشاہی کا چراغ گل ہو چکا ہے دارا اور سکندر تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکے ہیں...ارسطو زندہ ہے....
آخر میں اس عظیم مفکر کو اپنے ہی ایک کالم کے ایک اقتباس سے خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں۔ میرے حساب سے کام سے غلطی، غلطی سے تجربہ اور تجربے سے عقل، عقل سے خیال اور خیال ہی ایک ایسی شے ہے جس سے نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔
تھے عجب لوگ بُت کدے والے
صورتیں ایسی ملیں پھر نہ کبھی