آبادی کے پھیلاؤ اور گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے دنیا بھر کےشہروں میں گاڑیوں کی پارکنگ بہت بڑا مسئلہ بن گئی چکی ہے، تاہم بہت سے ممالک میں اس مسئلے کا موثر حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان، بالخصوص کراچی میں صورت حال یہ ہے کہ یہاں گاڑی پارک کرنا کسی عذاب سے کم نہیں، بالخصوص شہر کے مصروف کاروباری اور تجارتی مراکز کے قریب۔
رمضان المبارک میں شہر کے بیش ترعلاقوں خصوصا بازاروں کے اردگرد اس کام کے لیے جگہ ملنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ جگہ جگہ سڑکوں پر دو دو رویہ پارکنگ ہو جاتی ہے تو ٹریفک کے گزرنے کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات دہری پارکنگ کی وجہ سے گاڑی نکالنا ممکن نہیں ہوتا اور دہری پارکنگ کرنے والے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں پارکنگ مافیا کی چاندی ہوجاتی ہے۔
کراچی کی شاہ راہوں پر بڑھتے ہوئے ٹریفک جام اور کارپارکنگ کے مسائل نے شہریوں کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ شہرِ قائدطویل عرصے سے تجاوزات کی بھرمار کے باعث ٹریفک جام کے مسائل اور گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔
1990میں شہر کی سڑکوں کی کل طوالت سات ہزار چارسو کلومیٹرز تھی جو اب دگنی ہوچکی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ اس دوران شہر کی آبادی میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ شہر میں روزانہ نو سو سے زائد موٹرکارز اور بارہ سو موٹرسائیکلز رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کی سڑکوں پر چلنے والی کل گاڑیوں کی تعداد تقریبا ساٹھ لاکھ ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب شہر میں تجاوزات بڑھ رہی ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک جام رہتا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے جہاں فضائی آلودگی میں روزبہ روز اضافہ ہو رہا ہے وہیں گاڑیوں کی پارکنگ کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
پارکنگ کے لئے کوئی مخصوص جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مصروف شاہراہوں پر ہی اپنی گاڑیوں کو پارک کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمیں گھنٹوں ٹریفک جام اور ہول ناک حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے بہت کچھ ہے۔ کے ایم سی ،ڈی ایم سیز اور پولیس کی ناجائز پتھاروں سے یومیہ لاکھوں روپوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔
ٹریفک کی سست رفتار، گاڑیوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ، پارکنگ ایریاز کی کمی، سڑکوں پر تجاوزات، روڈ بلاکس، ٹریفک کا شدید دباؤ، سڑکوں کی خستہ حالی،سڑکوں پر سیوریج کاپانی اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ یا پیڈسٹرین برج نہ ہونے یا بہت ہی کم ہونے جیسے مسائل نے سڑک استعمال کرنے والے شہر یوں کو سخت مشکلات میں مبتلا کررکھا ہے۔
ادہر ٹریفک پولیس، ٹریفک کنٹرول کرنے کے بجائے غیر قانونی چارجڈ پارکنگ اور ناجائز چالان کرنے میں مصروف رہتی ہے جس کی وجہ سے دن رات سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے۔ تجاوزات کے باعث پیدل چلنے والوں کے لیے بنائے گئے فٹ پاتھس پربھی دکان داروں نے کاروبار سجا رکھے ہیں۔ پھر فٹ پاتھس کے نیچے ٹھیلہ مافیا نے ٹھیلے لگا رکھے ہیں۔ اس کے بعد جو جگہ بچتی ہے اس پر پارکنگ مافیانے قبضہ کر رکھا ہے۔
کراچی کی بیش ترسڑکیں ،خواہ وہ شارع فیصل ہو یا ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ، طارق روڈ ہو یا شاہ راہ ِلیاقت، آپ پارکنگ مافیاکی مدد سے وہاں پارکنگ کرسکتے ہیں۔ یہ مافیا ایک اندازے کے مطابق ماہانہ اس شہر کے باسیوں کی جیب سے کروڑوں روپے غیر قانونی طریقے سے نکال لیتی ہے۔لیکن کھاتی اکیلے نہیں ہے اور نہ کھاسکتی ہے۔ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ کیوں۔
ایسے میں کراچی میں پارکنگ کے مسئلے کا دنیا کے دیگر شہروں کی طرح حل یہ ہے کہ شہر میں جگہ جگہ بلند و بالا پارکنگ پلازا بنائے جائیں تاکہ ٹریفک کا نظام روانی سے چلتا رہے اور عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہو سکے۔
یہ نونومبر2021کی بات ہے۔ کراچی میں غیر قانونی و اضافی پارکنگ فیس کی وصولی کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں جاری کیس کی سماعت کے دوران انکشاف ہوا تھاکہ شہر بھر کے تمام انتظامی اداروں کی جانب سے گاڑی کی متعین کردہ پارکنگ فیس 20 روپے ہے، تاہم ہر جگہ50 سے100روپے وصول کیے جاتے ہیں، جو کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ دو رکنی بینچ کی جانب سے غیر قانونی پارکنگ کیس کی سماعت میں درخواست گزار گلوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ احمد داؤد نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ شہر میں غیر قانونی پارکنگ کے خلاف اسٹے آرڈر دیا جائے۔
اس حوالے سے عدالت نے کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے وکیل کو یکم دسمبر تک تمام تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیاتھا۔ عدالت نے کے ایم سی کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ پارکنگ فیس کس مد میں وصول کی جاتی ہے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ جیسے دیگر تمام یوٹیلیٹیز کے عوض پیسے وصول کیے جاتے ہیں تو بدلے میں سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں، لیکن پارکنگ فیس کے عوض کیا سہولت دی جاتی ہے؟
اس کے جواب میں کے ایم سی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارکنگ فیس کے بدلے میں کوئی اضافی سہولت نہیں دی جاتی۔ اس پر جج نے نشان دہی کی تھی کہ پارکنگ کی پرچی پر عبارت لکھی ہوتی ہے کہ’’چوری یا نقصان کی صورت میں پارکنگ کا عملہ ذمے دار نہیں ہو گا‘‘، کیا پارکنگ کا عملہ یہ فرض بھی انجام نہیں دے سکتا؟
اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران دو رکنی بینچ نے ریمارکس دیےتھے کہ کراچی بھر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ہر جگہ سڑک کےکنارے لوگ پارکنگ فیس وصول کرنے موجود رہتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہی حالات رہے تو لوگ اپنے گھر کے سامنے بھی گاڑی پارک کرنے کے پیسے دے رہے ہوں گے۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن، کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر متعلقہ شہری اداروں کی جانب سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس وقت شہر میں50کے قریب ایسے مقامات تھے جہاں پارکنگ فیس وصول کرنے کی قانونی طور پر اجازت تھی۔ البتہ عدالت کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق اس وقت شہر میں 200 کے قریب مقامات پر پارکنگ وصول کی جا رہی تھی جن میں سرکاری اسپتال تک شامل تھے۔
عدالت میں درخواست گزار احمد داؤد نے موقف اپنایا تھا کہ اسپتالوں کی پارکنگ کو فیس سے استثنیٰ دیا جائے، جس پر عدالت نے اگلی سماعت پر کے ایم سی کے وکیل کو جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے فراہم کی گئیں دستاویزات کے مطابق کراچی کے تمام مقامات پر اس وقت موٹر سائیکل پارکنگ کی فیس 5تا 10 روپے اور موٹر کار کی پارکنگ فیس ہر جگہ20روپے درج تھی۔
اس کے برعکس صدر، کلفٹن اور دیگر تجارتی اور کاروباری علاقوں میں پارکنگ کے ٹھیکے دار موٹر سائیکل کی پارکنگ کے20سے 30 روپے اور موٹر کار کی پارکنگ کے 50 سے 100 روپے وصول کر رہے تھے۔ دوران سماعت عدالت نے اس رقم کی وصولی کو’ ’پارکنگ مافیا کی جانب سے بھتّہ‘‘ قرار دیاتھا۔
پھرنو منتخب ایڈمنسٹریٹر کراچی، ڈاکٹر سیف الرحمان نے عہدہ سنبھالتے ہی 09 دسمبر،2022 کو کے ایم سی کی پارکنگ فیس ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے حکم دیا تھا کہ کے ایم سی پارکنگ فیس وصول نہیں کرے گی، پارکنگ اسٹاف کو ہٹایا جائے اور آکشن ہونے تک شہریوں کے لیے پارکنگ مفت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ چڑیا گھر، سفاری پارک اور دیگر پارکوں میں ٹھیکے کے ایم سی کے ملازمین چلارہے ہیں، آج سے کے ایم سی کے ملازمین کے تمام ٹھیکے بند کر دیے جائیں، کے ایم سی کےافسران اور عملہ پارکنگ کایا کوئی دوسرا ٹھیکہ نہیں چلائے گا۔
پھر اٹھارہ جنوری 2022آیا اور سندھ ہائی کورٹ نے غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ حکم شہر میں غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر دیا تھا۔
اس روز سندھ ہائی کورٹ نے جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل بینچ نے غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کرنے خلاف درخواست پر سماعت کی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھےکہ جو لوگ غیر قانونی طور پر پارکنگ فیس وصول کررہے ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی کریں۔
عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورے شہر میں جگہ جگہ غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ پارکنگ فیس وصول کرنے والوں نے بدمعاش لوگ بیٹھائے ہوتے ہیں۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر کسی کے پاس کے20 روپے نہیں ہوتے تو یہ لوگ اس معزز شہری کو بے عزت کرتے ہیں۔ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ جاتے ہیں تو یہ لوگ 20 روپےکے لیے تنگ کرتے ہیں۔
ان کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کرتا۔ پولیس والے کہتے ہیں ہمارا مسئلہ نہیں، ٹریفک پولیس والے کہتے ہیں، ہمارا مسئلہ نہیں۔ جسٹس عبدالمبین لاکھو نے استفسار کیا کہ پارکنگ فیس وصول کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔ اگر کسی کے گھر کے باہر گاڑی گھڑی ہو تو اس سے بھی فیس وصول کی جاتی ہے۔
ڈی ایم سی کیماڑی کے وکیل نے موقف دیا کہ اس قسم کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ کس جگہ کسی گاڑی سے کتنی فیس وصول کرنی ہے اس کا نوٹیفکیشن دکھائیے۔ فیس وصولی سے متعلق نوٹیفکیشن جمع نہ کرانے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ میں اٹھائیس اگست 2023 کو غیرقانونی پارکنگ فیس وصول کرنےکے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی توعدالت نے غیر قانونی پارکنگ کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ سندھ حکومت اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ٹریفک سے طلب کرلی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھاکہ پورے شہر میں ڈبل پارکنگ ہو رہی ہے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں ہو رہی ہے ڈبل پارکنگ؟ نشان دہی کریں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ڈی ایم سی، کے ایم سی والے پارکنگ دے رہے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارکنگ پلازا بنا تھا سنا ہے وہاں بھوت رہ رہے ہیں، اس پارکنگ پلازا کا کیا ہوا؟
کے ایم سی کے وکیل نے بتایا کہ وہ پارکنگ پلازا کے ڈی اےکے ماتحت آتا ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمارت کے بننے پر کروڑوں روپے لگے ہیں مسئلہ کیا ہے اس عمارت کا؟ اسے استعمال میں تو لایا جائے۔ کے ایم سی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جو روڈ کے ایم سی کے ماتحت ہیں وہاں پارکنگ چارجڈ کے ایم سی کرتا ہے۔
سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ سندھ حکومت کو پارکنگ کی اجازت دینے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے، یہ کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے اختیارات ہیں۔اس موقعے پر عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل کو ہدایت کی تھی کہ نشان دہی کر کے بتائیں کہ کہاں کہاں غیر قانونی پارکنگ ہے، تا کہ ہم فیصلہ دیں۔
اسی طرح دومارچ 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں چارجڈ پارکنگ کی نیلامی کا طریقہ کار، قوانین اور ایک ہفتے میں وصول شدہ فیس کی تفصیلات طلب کی تھی۔ یہ حکم سندھ ہائی کورٹ میں کراچی میں چارجڈ پارکنگ کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران دیاگیا تھا۔عدالت نے دریافت کیاتھاکہ کس ایریا میں چارجڈ پارکنگ کا کیس ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا تھا کہ صدر سمیت شہر بھرکی چارجڈ پارکنگ کامقدمہ ہے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ چارجڈ پارکنگ کے کیا قواعد و ضوابط ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے سامنے ڈبل پارکنگ، ٹرپل پارکنگ ہورہی ہے۔ یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے۔ باقی شہر میں کیا ہورہا ہوگا۔ اس موقعے پر کے ایم سی کے ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ نے کہا تھا کہ غیر قانونی پارکنگ کے خلاف کارروائی ٹریفک پولیس کا کام ہے۔لیکن ہم بھی کارروائی کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا تھاکہ چارجڈپارکنگ کے قواعد و ضوابط دکھائے جائیں ۔ جو رسیدیں دیتے ہیں اس کا ہفتہ وار یا ماہانہ کوئی ڈیٹاہوتا ہے۔ اس پر ڈائریکٹر پارکنگ نے بتایا تھا کہ کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ عدالت نے دریافت کیا کہ کیا گاڑیوں کی چوری روکنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہیں؟ پارکنگ فیس لینے والوں کا کوئی ڈریس کوڈ ہے؟ ٹول پلازہ کی طرح آٹومیٹک سسٹم کیوں نہیں استعمال کرتے؟ پارکنگ سائٹس کو چیک بھی کرتے ہیں یا بس ایک مرتبہ ٹھیکہ دے دیااس کے بعد کام ختم ہوگیا۔
پھردودسمبر2023کوسندھ ہائی کورٹ نےغیر قانونی پارکنگ کے خلاف درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا اور کہاکہ بتایا جائے کراچی میں غیرقانونی پارکنگ کا دھندہ کیسے چلایا جارہا ہے؟ عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ نجی افراد ٹریفک پولیس کی معاونت سے غیر قانونی پارکنگ چلا رہے ہیں، بتایا جائےکہ شہر میں غیرقانونی پارکنگ کا دھندہ کیسے چلایا جارہا ہے؟
سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھاکہ غیرقانونی پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، سندھ حکومت کا کام ہےکہ پارکنگ کے معاملات کو ریگولیٹ کرے، غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر جسٹس ندیم اختر کا کہنا تھا کہ بتایا جائےکہ شہر میں غیرقانونی پارکنگ کادھندہ کیسے چلایا جا رہا ہے، تمام افسران عدالت میں پیش ہوکر بتائیں کہ غیرقانونی پارکنگ کو کیسے روکا جائے۔ شہر میں ٹریفک کی روانی اہم مسئلہ ہے۔ نجی افراد ایسی جگہوں کو پارکنگ بنا کر استعمال کر رہے ہیں جس کی اجازت نہیں۔
اس مسئلے کےضمن میں آخر کار وہ دن بھی آیا جب سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سےغیر قانونی چارجڈ پارکنگ ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔ وہ دو دسمبر 2023 تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبہ رو غیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے کے ایم سی کے حکام سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت آپ پارکنگ فیس وصول کرتے ہیں؟ کے ایم سی کے وکیل نے موقف دیا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کے ایم سی کو روڈ مینٹی نینس کے لیے پارکنگ فیس وصول کرنے کی اجازت ہے، کے ایم سی کو 41 روڈز اور سروس روڈز پر پارکنگ فیس وصول کرنے کی اجازت ہے۔اس موقعے پر عدالت نے ریمارکس دیے تھےکہ کے ایم سی کے نام پر غیر متعلقہ افراد کو کیسے پارکنگ فیس وصولی سے روکیں گے؟
بیرون ملک تو پارکنگ فیس کے لیے مشینیں نصب ہوتی ہیں، کیا کے ایم سی تمام علاقوں میں فیس وصول کرسکتی ہے؟ کیا عدالت کو بتانا پڑے گا کہ آپ کی ذمے داری کیا ہے؟ اس پر کے ایم سی کے وکیل نے موقف اپنایا تھا کہ کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کی الگ الگ پارکنگز ہیں۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ کے ایم سی کی رپورٹ حقائق کے برعکس ہے، صرف کاغذی کارروائی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا تھا کہ ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات بھی حقائق کے منافی ہیں۔
اس موقعے پر جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ ہمیں43مقامات کی فہرست دی گئی اور ویب سائٹ پر 81سائٹس ہیں۔ پارکنگ کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ جو علاقے کے ایم سی کی حدود میں نہیں آپ وہاں کیسے فیس وصول کرسکتے ہیں؟ آپ ان علاقوں کی سڑکوں کی مرمت نہیں کرسکتے تو اس کی فیس کس قانون کے تحت وصول کررہے ہیں؟
ہمیں تفصیلی جواب چاہیے جہاں پارکنگ نہیں ہونی چاہیے، وہاں کیسے اس کی اجازت دی جاتی ہے؟ عدالت نے کی کے ایم سی کو غیر قانونی پارکنگ ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئےکے ایم ای سی کےحکام کو پارکنگ کے قانون، پارکنگ فیس کی وصولی اور دیگر تفصیلات اور جامع پلان پیش کرنے کا حکم دےکر سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔
جب عدالت، عوام اور ٹریفک کے مسائل کا دباؤ بہت زیادہ ہوگیا اور عوام اور پارکنگ مافیا کے درمیان جھگڑے بڑھتے بڑھتے آئے روز سوشل میڈیا اور ذرایع ابلاغ کی زینت بننے لگے تو حکومت سندھ جاگی، کیوں کہ بعض اطلاعات کے مطابق ٹریفک پولیس کے حکام اور اور بعض حساس اداروں نے حکومتِ سندھ کو مطلع کیا تھا کہ کہ ہوش ربا منہگائی کے بعد عوام، بالخصوص کم آمدن والے اور موٹر سائکل کے دریعے روزی روٹی کمانے والے مذکورہ مافیا سے شدید نفرت کرنے لگے ہیں اور روز روز کے جھگڑے کسی دن شہر میں بڑے فسادات کی راہ ہم وار کرسکتے ہیں۔
چناں چہ رواں برس اٹھارہ فروری کو حکومتِ سندھ نے تمام پارکنگ فیس ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اس روز وزیر ٹرانسپورٹ سندھ، شرجیل میمن کا کہنا تھاکہ آج سے تمام چارجڈپارکنگز ختم کی جارہی ہیں، آج کے بعد کوئی چارجڈ پارکنگ جاری رہی تو وہ غیر قانونی ہوگی۔
اس سے قبل گزشتہ برس سولہ اکتوبر کو وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ٹاسک فورس تشکیل دیتے ہوئے ایک بار پھر شہر قائد سے تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ ہٹانے کا حکم دیاتھا۔ ذرایع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام نے بہ ظاہر ان ہدایات پر کان نہیں دھرے تھے جو وزیراعلیٰ نے تین ماہ قبل تمام شہری اور بلدیاتی اداروں کو تجاوزات کے خاتمے کے لیے دی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بارہ جولائی کو مراد علی شاہ نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، ٹاؤن میونسپل کارپوریشن اور سٹی انتظامیہ کو پولیس کے تعاون سے عوامی مقامات سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت کی تھی اور اس بات کا مشاہدہ کیا تھا کہ فٹ پاتھس، گرین بیلٹس، چلنے کی جگہوں اور گلیوں میں تجاوزات نے شہر کو خراب کر دیا ہے اور اس سے سنگین صورت حال پیدا ہو رہی ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں مسائل ہیں، لیکن کوئی اتھارٹی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اکتوبر ہی میں کراچی میں انفرا اسٹرکچر کی خراب صورت حال پر تبادل خیال کے لیے ایک اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیر بلدیات سعید غنی کی زیر سربراہی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی اور شہر کی اہم ترین 10 سے 15 سڑکوں سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جاری ترقیاتی منصوبوں، تباہ شدہ سڑکوں، نکاسی آب کے مسائل، غیر قانونی پارکنگ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی تجاوزات کی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح گزشتہ برس سولہ اکتوبر کو کراچی کے تاجروں نے چیئرمین پیپلزپارٹی، بلاول بھٹو سے لینڈ گریبر اور پارکنگ مافیا سے چھٹکارا دلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فٹ پاتھ لیز کیے جارہے ہیں، پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے، زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں، ان کا نوٹس لیا جائے۔
یہ مطالبہ کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفام نے جنرل سیکریٹری عابد سوریا، اسماعیل لائیل پوریہ الطاف لالا، زاہد امین، شرجیل گوپلانی جمعہ خان احمد شمسی و دیگر راہ نماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔
ان حالات میں گزشتہ برس تیرہ دسمبر کو کراچی پولیس چیف نے چارجڈ پارکنگ مافیا کے خلاف ایکشن کا اعلان کردیا تھا۔ پولیس چیف جاویدعالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کوخط لکھوں گا، چارجڈ پارکنگ کے مقام پر نمایاں بورڈ آویزاں کیے جائیں۔ انہوں نے کراچی الیکٹرونک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ کراچی کے شہریوں سے چارجڈ پارکنگ کے نام پر بھتہ نہیں لینے دیا جائے گا۔
یہ مافیا بھی شہر میں کوئی نیا نہیں۔ عوام تو اس کے بارے میں بہت کچھ کہتے رہتے ہیں، لیکن اس کے کرتوت اگر سرکاری حکام کی زبانی پیش کیے جائیں تو یقینا وزنی ہوں گے، کہ یہاں عوام کی تو کوئی قدر ہی نہیں۔
یہ نو جنوری 2021 کی بات ہے۔ اس وقت ڈی آئی جی ٹریفک اقبال دارا تھے اور بلدیہ عظمی کراچی کا نظام ایک ایڈ منسٹریٹر کے ذریعے چلایا جارہا تھا۔ اس روز ڈی آئی جی ٹریفک اقبال دارا نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے نام مکتوب میں کہا تھا : ’’ چارجڈ پارکنگ انتظامیہ کی جانب سے پارکنگ کے قانون کی خلاف ورزی جاری ہے، چارجڈ پارکنگ کے خلاف بڑی تعداد میں شہریوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں، زیادہ تر شکایات چارج پارکنگ کنٹریکٹر زاور آپریٹرز کے خلاف ہیں۔
بدانتظامی کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، پارکنگ انتظامیہ بجائے سہولت کے تکلیف کا باعث بن رہی ہیں، شہر کے کسی بھی کنٹریکٹر کی پارکنگ سلپ ایک جیسی نہیں ہے، چارجڈ پارکنگ فیس، پارکنگ کے اوقات، ٹھیکے دار کے نام کا کہیں بورڈ موجود نہیں، پیسوں کے لالچ میں پارکنگ کروانے والے اہل کار ڈبل اور ٹرپل لائنیں لگوا رہے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے‘‘۔
درحقیقت کراچی کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں، کہیں بھی جا کر کسی شاپنگ مال، مارکیٹ یا گلی میں بھی گاڑی پارک کر دیں تو کوئی نہ کوئی چھلاوے کی صورت نمودار ہوگا، خود کو اس سڑک کا ذمے دار ظاہر کرے گا اور آپ کو پابند کرے گا کہ آپ گاڑی پارک کرنے کی فیس ادا کریں۔
یوں شہر کے تمام شاپنگ مال، کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹس اور تفریحی مقامات کے قریب ’’پارکنگ مافیا‘‘ کا راج ہے، جو ایک باضابطہ طور پر وضع کردہ نظام کے تحت اپنا دھندہ کرتاہے، جس میں انہیں مبینہ طور پر سرکاری اہل کاروں کی سرپرستی اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ کوئی چھوٹا موٹا دھندہ نہیں۔ کراچی میں 150 سے زائد غیر قانونی پارکنگ سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ شہر بھر میں قانونی و غیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے اضافی وصولیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔