• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک نانا یا دادا اپنے نومولود نواسے یا پوتے کو بے پناہ محبت سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا ہے اسکے گال پیار سے سہلا رہا ہے نومولود کی ماں کی آنکھوں میں والہانہ مسرت ہے جو اس بزرگ کی بیٹی ہے یا بہو۔ ہسپتال کا ماحول بھی مسکرانے لگا ہے یہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی ہو رہی ہے ایک نسل سے یگانگت تیسری نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے نانا یا دادا کی گفتگو میں جو اپنائیت ہے لگن ہے رچاؤ ہے وہ دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔ ذمہ داری ایک ریاست اور اسکے اداروں کی ہوتی ہے۔ 21ویں صدی میں تو یہ فرائض اور بھی زیادہ نازک گہرے اور ناگزیر ہو گئے ہیں۔ زمانے کی تیز رفتاری، آبادی کے بڑھتے دباؤ میں انسانوں میں آپس میں قربت اور مفاہمت زیادہ لازم ہو گئی ہے۔ ہر طرف مشینیں ہیں برقی آلات ہیں۔ ان میں ہر عمر کے انسان گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کا نائب حضرت انسان مشینوں کا محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت مصنوعی مامتا مصنوعی آغوش، اصل ذہانت حقیقی مامتا سچی گود کی نعم البدل نہیں ہو سکتی ہے۔

ہم الخدمت ہسپتال ناظم آباد کی انتظارگاہ میں ہیں۔ کراچی کی بیٹیاں پورے برقعوں میں عام لباس میں اپنے اپنے نومولود سینے سے لگائے آرہی ہیں۔ سب کے چہروں پر ایک اعتماد ہے آنکھوں میں بھروسہ۔ کارکن ڈاکٹر اپنی اپنی جگہ مستعد اپنے مقصد پر نظریں جمائے، کوئی افراتفری نہیں ہے شکوے شکایتیں نہیں ہیں۔ ایک روز پہلے ہم نے تشخیص گاہ میں یہی عالم شوق دیکھا تھا۔ بیماریوں کی تشخیص کی تجربہ گاہیں مشینیں سب موجود ہیں سب کچھ ایک نظم و ضبط کے تحت ہو رہا ہے خوشی ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اپنی عظیم مملکت میں باقاعدگی اور مہربانی کے کچھ جزیرے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست کے اکثر فرائض غیر حکومتی ادارے غیر ریاستی تنظیمیں بہت کمال عنایت سے انجام دے رہے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دے رہے۔ سرکاری ادارے میں تو کلرک جونیئر ہو یا سینئر نائب قاصد بھی فرعون بنے گھومتے ہیں بڑے افسر تو کسی عام انسان سے گفتگو کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ یہی رویہ عوام اور حکومت، خلق خدا اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈزیزز ادارہ برائے امراض قلب کے کنٹینر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دل سے کلمہ تحسین کہ سندھ حکومت نے بیماری دل کا علاج ہماری دہلیز تک پہنچا دیا ہے گارڈ سے لیکر ڈیوٹی ڈاکٹر تک سب کے چہروں پر ایک مہربان مسکراہٹ۔ کوئی کسی کو نہیں جانتا نہ ہم کسی کو اپنے بارے میں کچھ بتا رہے ہیں۔ یہاں رشتہ یہی ہے کہ ایک طرف ریاست کے نمائندے حکومت کے کارکن اور دوسری طرف ایک عام پاکستانی، یہ سب ہر ایک کے ساتھ اسی عزت و احترام سے پیش آ رہے ہیں باری باری ،کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں۔ البتہ کسی کی حالت اگر نازک ہے تو اس کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر بھی متوجہ نرس بھی ،تحریر قلب فشار خون جانچنے والے سب بہت ہی لگن سے مخاطب ہو رہے ہیں، کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون نہیں ہے۔ ادارہ برائے امراض قلب میں بھی اگلے دن ایسے ہی سلوک کا نظارہ ہوتا ہے لیکن وہاں بہت ہجوم ہے افراتفری ہے۔ ادارہ برائے امراض قلب نے ایسے تشخیصی گوشے کراچی سمیت سندھ کے سب شہروں میں قائم کر دیے ہیں۔ کوئی سندھ حکومت کو سیاسی لسانی سماجی طور پر پسند نہ بھی کرتا ہو مگر ان تشخیصی گوشوں کی بدولت سندھ حکومت کیلئے ایک تحسین کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ میں جو جذبات محسوس کر رہا ہوں ان گوشوں میں دل کی تیز دھڑکنیں لے کر پہنچنے والے بھی یقیناً یہی احساسات رکھتے ہوں گے۔ کنٹینروں سے صرف ریلیوں کوروکنےکی ہی نہیں ایسی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں ۔کنٹینر مہربانی میں حائل نہیں بلکہ محبت کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ بیشتر سرکاری اداروں میں یہ مہربان نگاہیں کیوں نظر نہیں آتیں اور تمام سہولتوں کے باوجود پاکستانیوں کو راحت کیوں نہیں ملتی ہے۔ یہاں نانا دادا کے چہرے پر جو والہانہ مسکراہٹ ہے وہ ریاست کے چہرے پر کیوں نہیں ہے۔ حکمرانوں کی آنکھوں میں مروت کے بجائے رعونت کیوں ہے۔ سرکاری محکموں میں بھی نگراں موجود ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری پبلک اور سرکاری افسروں کے درمیان سلوک اور برتاؤ دیکھنا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جوں جوں اشرافیہ وجود میں آتی رہی ہے اصل حکمرانوں کی جگہ پسندیدہ حکمران مسلط کیے گئے ہیں ان سب کا اپنا ایک لشکر ہوتا ہے جو ایک عرصے سے منتظر ہوتا ہے، انکو مختلف محکموں میں کھپانا ہوتا ہے چاہے وہ اس کے اہل ہوں یا نہیں۔ بڑے بڑے کلیدی عہدے نگراں ڈیوٹیاں سب اسی طرح بانٹ دی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی پارٹی کی آبرو کا خیال ہوتا ہے نہ ہی اپنے پارٹی سربراہوں کے وقار کا۔موٹروے،ادارہ برائے امراض قلب اور چند ایک دوسرے ایسے سرکاری مقامات غنیمت ہیں اور یہ اس قوی امکان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ اگر ماحول سازگار ہو اور افسر اہل ہوں تو ہمارے پاکستانی ذمہ دار ریاستوں کے شہریوں کی طرح ایک مستحکم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے حالات اور معمولات پر تبادلہ خیال کا دن۔ ملک میں کیا ہو رہا ہے دنیا پر کیا گزر رہی ہے ۔شعبان المعظم کی ساعتیں اختتام پانے والی ہیں۔ رمضان المبارک برکتیں رحمتیں مغفرتیں لیکر آ رہا ہے۔ اب دوپہر کے کھانے کے بجائے اہل خانہ افطار پر اکٹھے ہوں گے۔ یہ مہینہ کتنی تجلی لے کر آ رہا ہے۔ آپ کو ہم کو سب کچھ سمیٹنا ہے۔ اپنے معبود حقیقی سے لو لگانی ہے ،سر اسی کے سامنے جھکانا ہے۔ رمضان ملت اسلامیہ کو یہ بھی دعوت دیتا ہے کہ مل جل کر جہاں جہاں کلمہ طیبہ کے ماننے والے یا عام انسان مشکلات سے دوچار ہیں، انکی آسانی کیلئے کوششیں کی جائیں۔ مظالم کا تسلسل روکا جائے۔ اپنا خام مال مسلمان ریاستیں اپنی مصنوعات کیلئے استعمال کریں۔ حقیقی مینڈیٹ حاصل کر کے ہی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے اور اقتصادی آزادی ہی حقیقی آزادی ہے۔ اسکا حصول ہی ریاست کو حقیقی طاقت اور اصل خود مختاری دے سکتا ہے۔ اکثر مسلمان ملکوں میں عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا۔ کشمیری عوام کے حقوق مودی انتظامیہ غصب کر رہی ہے۔ بہادر فلسطینی لوگوں کے اختیارات یہودیوں نے چھین رکھے ہیں اور قتل عام روا رکھا ہے مگر مسلمان حکمران چونکہ اپنے لوگوں کو ہی اختیارات دینے سے گریز کرتے ہیں اسلئے فلسطینی ،کشمیری نسل در نسل جبر و استبداد کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس رمضان کے مقدس دنوں میں ہر عبادت میں ہمیں اپنے حقوق اور اقتصادی آزادی کے حصول کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں اور کشمیریوں کی حقیقی آزادی کیلئے بھی دل کی گہرائی سے دعا کرنا ہے۔

تازہ ترین