کیا سندھ کو بنجرکرنے کا ارادہ ہے؟ اس قسم کے اندیشے مختلف اسباب کی بنا پر کچھ عرصہ قبل میرے ذہن میں بھی پیدا ہوئے تھے لہٰذا اس وقت میں نے ایک کالم اس اندیشے کو مدنظر رکھ کر لکھا تھا۔ اب پھر یہ اندیشے کچھ بڑے پیمانے پر محسوس کئے جارہے ہیں‘ یہ اندیشے تو گزشتہ کئی ماہ پہلے سندھ کے عوام میں بھی پیدا ہوئے تھے جب ’’کچھ حلقوں‘‘ کی طرف سے دریائے سندھ پر مزید چھ کینال بنانےکیلئے کام شروع ہورہا تھا۔ اس کیخلاف پورے سندھ میں کئی ماہ سے لانگ مارچ‘ جلوس نکالے جارہے تھے اور دھرنے بھی دیئے جارہے تھے‘ ان میں سندھ کے ہر طبقے کے لوگ شامل تھے‘ جن میں سیاسی کارکن تھے تو مزدور بھی‘ ہاری بھی تھے‘ وکیل بھی مگر اب تو سندھ کیلئے صورتحال مزید سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب 17فروری کے روزنامہ جنگ میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ’’وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت رواں مالی سال کے دوران 111ڈیم منصوبے تعمیر ہونے سے ملک میں مجموعی طور پر 87لاکھ 77ہزار 228ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنیکی گنجائش ہوگی اور ساڑھے 5لاکھ ایکڑ نئی اراضی زیر کاشت آئے گی۔ وزارت آبی وسائل کی دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت رواں مالی سال کے دوران 32 جبکہ صوبائی حکومتیں 79ڈیم تعمیر کررہی ہیں۔ وفاقی حکومت کے یہ ڈیم منصوبے مختلف مراحل میں ہیں‘ ان منصوبوں کی تخمینی لاگت 11056اعشاریہ 985ارب روپے ہے‘ مکمل ہونے پر یہ منصوبے تقریباً 84لاکھ 29ہزار 288ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کرینگے اور 4لاکھ 36ہزار 932ایکڑ نئی اراضی سیراب کرینگے۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے 79ڈیم منصوبے تعمیر کئے جارہے ہیں جن کی لاگت 83اعشاریہ 400ارب روپے ہے‘ ان منصوبوں کی تکمیل سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور ایک لاکھ 9ہزار 966ایکڑ نئی اراضی زیر کاشت آئیگی۔ یہ خبر پڑھتے ہی مجھے سندھ بھر سے اب تک کئی فون آچکے ہیں‘ ان میں سے کئی لوگوں نے ایک بات کہی کہ اب یہ بات صحیح ثابت ہورہی ہے کہ ہمارے حکمراں سندھ کو مکمل طور پر بنجرکرنا چاہتے ہیں مگر اس سلسلے میں ایک بات اہم ہے کہ یہ ڈیم جو بن رہے ہیں وہ بڑے ڈیم نہیں بلکہ چھوٹے ڈیم ہیں۔ اسکے علاوہ یہ بھی کم دلچسپ نہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی۔ علاوہ ازیں ان سرکاری اعداد و شمار میں یہ بات بھی ظاہر نہیں کی گئی کہ کتنے ڈیم کس صوبے میں بن رہے ہیں؟ ان اہم ایشوز پر سرکاری اعداد و شمار خاموش ہیں۔ اب میں ان چھ کینالوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سندھ کو اعتماد میںلئے بغیر دریائے سندھ پر بنائی جارہی ہیں مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کینالوں سے پہلے مرکزی حکومت نے جو متنازع کینال بنائی ہیں ان کینالوں سے دریائے سندھ سے پانی حاصل کیا جارہا ہے اور اس طرح سندھ کو اس پانی سے محروم کیا جارہا ہے۔ ان میں ایک کینال ’’گریٹر تھل کینال‘‘ ہے‘ اس کینال کے ذریعے سندھ سے جو زیادتی کی گئی اور کی جارہی ہے اسکا میں عینی شاہد ہوں۔ ایک بار واپڈا کے اُس وقت کے چیئرمین کی طرف سے لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی‘ اس پریس کانفرنس میں شرکت کیلئے خاص طور پر کراچی سے مجھ سمیت کچھ صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس سے چند دن پہلے اطلاعات کے مطابق اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں بشمول کالا باغ ڈیم کچھ اور متنازع کینالوں کی منظوری دی گئی، جب پریس کانفرنس شروع ہوئی تو چیئرمین واپڈا سے اکثر سوال میں نے ہی کئےجن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ کیا ارسا ایکٹ کے تحت یہ ان پراجیکٹس کی منظوری فقط سی سی آئی دے سکتی ہے۔ چیئرمین واپڈا نے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ درست ہے‘ اب ان پروجیکٹس کو سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کیا جائیگا‘ بعد میں چائے کے وقفے کے دوران میں نے سیکریٹری واٹر اینڈ پاور سے کہا کہ مہربانی کرکے مجھے گریٹر تھل کینال پروجیکٹ کی کاپی دی جائے تاکہ میں اس کا جائزہ لے سکوں۔ اس پر مجھے بڑا دلچسپ جواب ملاکہ یہ اسکیم وفاقی حکومت نے نہیں پنجاب حکومت نے تیار کی ہے۔یہ اسکیم ابھی وفاقی حکومت کے پاس نہیں آئی۔یہ ابھی پنجاب حکومت کے پاس ہے۔اسی شام کو صحافیوں کے ہمارے وفد کو واپڈا نے گاڑی کے ذریعے تھر کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں جاکر تھر کے علاقے کا جائزہ لیں۔ تھر کا علاقہ چونکہ لاہور سے بہت دور ہے لہٰذا جب ہماری گاڑی تھر کے علاقے میں پہنچی تو رات ہورہی تھی پھر گاڑی تھر کے علاقے میں داخل ہوگئی چونکہ اندھیرا تھا لہٰذا کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر اچانک دور روشنیاں بھی نظر آئیں تو بڑی بڑی گاڑیوں کی آوازیں سنائی دیں جب نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ بڑے ٹرک کسی نہر کی کھدائی کررہے ہیں‘ ہمیں باہر آنے کا کہا گیا‘ اس مرحلے پر پنجاب کے ایک سرائیکی افسر جو اس دن پریس کانفرنس میں بھی موجود تھے میرے پاس آئے‘ آہستہ سے ہنستے ہوئے میرے کان میں بولے کہ ’’جناب یہ گریٹر تھل کینال‘‘ کی کھدائی ہورہی ہے جس کا آپ سوال کررہے تھے‘ بعد میں جب ہم واپس کراچی لوٹ آئے تو میں نے اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں خبر دی کہ گریٹر تھل کینال کس طرح غیر قانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہے۔(جاری ہے)