• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس جنگ نے امریکا اور یورپ کو پھر سے متحد کردیا تھا، اب اُسی جنگ سے متعلق مذاکرات نے اِن اتحادیوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور یہ صرف ایک شخص کے اقتدار میں آنے سے ہوا ہے۔ وہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ۔ ایک فوجی فلسفی کا قول ہے کہ’’جنگ کرنا آسان، مگر اُسے امن کے ذریعے ختم کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

بالکل یہی صُورتِ حال روس، یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں نظر آئی۔کہانی کا آغاز اُس ٹیلی فون کال سے ہوتا ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر کے درمیان ہوئی۔ دونوں طرف کے بیانات کے مطابق، اِس کال میں مرکزی نکتہ جنگ کا خاتمہ تھا، لیکن دونوں بڑی طاقتوں کے صدور کی بات چیت کے دَوران امریکا، روس تعلقات کی بحالی بھی زیرِ بحث آئی۔اِس ضمن میں اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان جو ابتدائی بات چیت ریاض، سعودی عرب میں ہوئی، اُس سے تو لگتا ہے کہ مذاکرات امریکا اور روس کے تعلقات کی بحالی کے لیے زیادہ، سیز فائر کے لیے کم تھے۔

خیر، اِس پر بہترین تبصرہ یہی ہوسکتا ہے کہ یہ ٹرمپ کا مخصوص سفارتی انداز ہے، لیکن اِس سفارت کاری نے مغربی اتحادیوں کے درمیان گہری دراڑ ڈال دی ہے۔امریکا جنگ کے خاتمے پر اکیلا ہی روس سے بات چیت کرنا چاہتا ہے، جب کہ یورپ، یورپی یونین اور یوکرین کی موجودگی پر مُصر ہے۔ یوکرین کے صدر ذیلنسکی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکا،روس یک طرفہ معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔ایک دل چسپ بات یہ ہوئی کہ ایک ہی جنگ پر ریاض اور پیرس میں الگ الگ بات چیت ہوئی اور وہ بھی انتہائی اعلیٰ سطح پر۔

فی الحال تو ایک کھچڑی سی پکتی نظر آرہی ہے اور فریقین اس میں سے دال اور چاول کیسے الگ کریں گے، یہ دیکھنے کی چیز ہوگی۔ یہ تاثر خود مغربی میڈیا دے رہا ہے کہ مذاکرات کے پہلے راؤنڈ میں روس کا پلڑا بھاری نظر آیا اور پیوٹن وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کام یاب رہے، جو وہ چاہتے تھے۔وہ اِس امر پر خوشیاں منا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے صدیوں پرانے اتحادیوں کو الگ الگ کردیا۔

ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ اب مغربی فوجی طاقت کے مرکز، نیٹو کا مستقبل کیا ہوگا۔ صدر ٹرمپ کا اپنی پہلی ٹرم سے یہ مؤقف رہا ہے کہ نیٹو، یورپ کے دفاع کے لیے ہے، تو وہاں کے ممالک کو اس میں زیادہ مالیاتی حصّہ ڈالنا چاہیے۔ یاد رہے، اب تک امریکا ہی اس کا زیادہ تر بوجھ برداشت کرتا رہا ہے،جو مغربی بلاک کی لیڈر شپ اور سُپر پاور ہونے کی قیمت ہے۔

روس، یوکرین جنگ پر دو دارالحکومتوں میں مذاکرات ہوئے۔صدر ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب سے ڈیڑھ گھنٹے طویل ٹیلی فونک گفتگو کے بعد اعلان کیا کہ وہ یوکرین جنگ پر پیوٹن سے جلد سعودی عرب میں ملیں گے، لیکن اِس بات کا کہیں ذکر نہیں تھا کہ جنگ کا دوسرا فریق، یعنی یوکرین یا امریکا کے یورپی اتحادی بھی موجود ہوں گے یا نہیں۔کیا سب نے ٹرمپ کو بلینک چیک دے دیا۔ جنگ یوکرین لڑ رہا ہے، لیکن وہ مذاکرات کی ٹیبل پر موجود ہی نہیں۔

وہ یورپی یونین کا رُکن بننے جارہا ہے، لیکن کوئی یورپی مُلک بھی بات چیت کا حصّہ نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ٹرمپ نے کہا کہ اُنھوں نے روسی صدر کے ٹیلی فون سے پہلے یوکرینی صدر ذیلنسکی سے بھی بات چیت کی۔ صدر پیوٹن سے بات چیت سے متعلق ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں اور بعدازاں میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ روس اور یوکرین، دونوں جنگ کے خاتمے پر راضی ہیں۔جب کہ صدر پیوٹن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات میں یورپی ممالک کی کیا ضرورت ہے، وہ تو جنگ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

فوراً بعد امریکی وزیرِ دفاع نے برسلز میں مغربی ممالک کی سیکیوریٹی کانفرنس میں بتایا کہ ضروری نہیں کہ روسی قابض علاقے یوکرین کو واپس مل جائیں، ہاں کچھ مل سکتے ہیں۔ یاد رہے، گیارہ سال قبل جب یوکرین کا تنازع شروع ہوا،تب روسی حمایت یافتہ یوکرینی صدر فرار ہوکر روس میں پناہ گزین ہوگئے تھے، جس کے بعد روس نے جزیرہ کریمیا پر حملہ کر کے اُس پر فوجی قبضہ کرلیا اور اُسے روس کا حصّہ بنا لیا۔

آج میدانِ جنگ کی صُورتِ حال یہ ہے کہ روس، یوکرین کے پانچویں حصّے پر قابض ہے اور یہ بھی کریمیا کی طرح روسی زبان بولنے والوں کا علاقہ ہے۔1928 ء کے پیرس معاہدے کے تحت اب کوئی مُلک، دوسرے مُلک کے کسی حصّے پر مستقل قبضہ نہیں کرسکتا اور اسے جنگی تاریخ کا انقلاب مانا جاتا ہے۔ پیرس کنونشن نے چھوٹے ممالک کی سالمیت کی ضمانت دی، وگرنہ ماضی میں جو مُلک دوسرے مُلک پر قابض ہوا، اُسے ہڑپ ہی کرلیا۔اب روس کا اصرار ہے کہ اُس نے تین سالہ جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہ اُن سے دست بردار نہیں ہوگا اور امریکی سفارت کار کے بیان سے لگتا ہے کہ امریکا اس پر راضی ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع نے یہ بھی کہا کہ یوکرین، نیٹو کا حصّہ نہیں بن سکے گا۔ اب ساری جدوجہد اور جنگ تو اِسی بات پر تھی۔ روس کا یہی مؤقف تھا کہ یوکرین، نیٹو کا حصّہ نہ بنے اور اُس نے اِسی بنیاد پر یوکرین پر حملہ کیا۔ تو اب اگر یوکرین، نیٹو کا حصّہ نہیں بنتا، تو پھر یورپی یونین کے لیے اس کا دفاع کرنے کا کیا جواز رہ جائے گا۔ گزشتہ سالوں میں جو سیکڑوں بلین ڈالرز اور جدید ساز وسامان یورپ اور امریکا نے یوکرین کو دیئے، اُس کا حساب کتاب کیسے ہوگا۔

کیا یہ صرف پیوٹن کی فوجی اور سفارتی فتح ہے اور صدر ٹرمپ، جو مغربی اتحاد کے لیڈر بھی ہیں، اُنھیں یہ سب کچھ ایک پلیٹ میں سجا کر پیش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ ایک تاجر کے طور پر امریکی پالیسی چلانا چاہتے ہیں اور اُن کے اعلیٰ مشیر بھی تاجر ہیں۔ وہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں، تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکا اپنے سُپر پاور کردار یا مغربی لیڈر شپ سے دست بردار ہوجائے گا اور تنہا پرواز کرے گا، کیوں کہ اگر وہ اپنے اتحادیوں کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں، تو وہ اسے اپنا لیڈر کیوں بنائے رکھیں گے۔

کیا ٹرمپ کی زیرِ قیادت امریکی پالیسی ساز اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب ورلڈ لیڈر شپ سے دست بردار ہو کر عام مُلک کی طرح رہا جائے۔ یہ سوال اِس لیے بھی اہم ہے کہ صدر ٹرمپ بار بار کہہ چُکے ہیں کہ وہ امریکا کی عظمت بحال کریں گے، اسے اتنی بڑی فوجی اور اقتصادی قوّت بنائیں گے کہ کوئی اس سے ٹکرانے کا تصوّر بھی نہ کرے، لیکن جو پیش رفت ریاض مذاکرات سے شروع ہوئی، اس سے تو کچھ اور ہی تاثر قائم ہوتا ہے۔

سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ اور روسی وزیرِ خارجہ نے اپنی اپنی ٹیمز کی سربراہی کی۔ مذاکرات کا کوئی مشترکہ اعلامیہ تو جاری نہیں ہوا، تاہم دو باتیں ضرور سامنے آئیں۔ دونوں طرف کے سفارت کاروں پر مشتمل چار ٹیمز تشکیل دی جائیں گی، جو دو امور پر توجّہ دیں گی۔

اوّل، امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کی بحالی، دوم، یوکرین جنگ کا خاتمہ۔ ریاض مذاکرات کے بعد روس کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ’’یہ بات چیت بہت خوش گوار ماحول میں ہوئی اور بہت مثبت رہی۔‘‘ وہ پیوٹن کے مؤقف پر ڈٹے رہے اور کہا کہ یوکرین کا نیٹو میں شامل ہونا یا نیٹو ممالک کی فوجوں کا یوکرین آنا، ناقابل برداشت ہوگا۔ 

ایسا اُنہوں نے شاید رُعب راب کے لیے کہا، کیوں کہ جب امریکی پیٹریاٹ دفاعی نظام اور اس کا جدید توپ خانہ وہاں ہے، یورپ کا جدید اسلحہ تین سال سے اُس کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور یورپی ممالک کی روس پر پابندیاں بھی جاری ہیں، تو پھر یہ ناقابلِ برداشت کا بیان بے پر کی اُڑانا ہی ٹھہرا۔ ہاں، یوکرین کے نیٹو میں شامل نہ ہونے کی بات ٹرمپ اور اُن کے ساتھی بھی کر چُکے ہیں۔ 

امریکی ٹاپ ڈپلومیٹ، مارکو روبیو نے صُورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جنگوں کا اختتام بڑا پیچیدہ معاملہ ہے۔‘‘ابھی تو سفر کا آغاز ہے اور وہ بھی ایسی جنگ کا، جسے یورپی ممالک دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا حملہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ صدر پیوٹن نے ایک مقصد تو حاصل کر لیا کہ روس، تقریباً تیس سال بعد پھر امریکا کے ساتھ ایک بڑی طاقت کے طور پر میز پر بیٹھا۔ پیوٹن کا سوویت یونین کی بحالی کا خواب کم ازکم مذاکرات کی میز پر تو نظر آیا۔ 

روسی وزیرِ خارجہ کی باتیں پیوٹن کے آہنی کردار کی پرچھائیں نظر آئیں۔ غالباً پیوٹن نے اُنہیں ٹرمپ کی بلند آہنگ فطرت دیکھ کر ایسا کرنے کو کہا تاکہ دنیا کو طاقت کا تاثر ملے، لیکن روس یہ تاثر کیسے زائل کرے گا کہ صرف دو مہینے قبل شام میں اُس کے مشرقِ وسطیٰ کے واحد حلیف، بشار الاسد کو اُس کی تمام تر فوجی، مالی سپورٹ کے باوجود بدترین شکست ہوئی۔یہ امریکا، یورپ اور عرب ممالک کی مکمل فتح تھی۔

روس کے ساتھ ایران کو بھی سبکی اُٹھانا پڑی۔ دوسری اہم پیش رفت سعودی عرب نے کی اور اُس نے نصف صدی بعد ایک بار پھر بین الاقوامی امور میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے قبل شاہ فیصل نے تیل کی سپلائی بند کرکے دنیا ہلا دی تھی۔ اب ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب عالمی سفارت کاری میں اہم پیش رفت کر رہا ہے۔ اس کی سرزمین پر امریکا اور روس ایک بڑی عالمی جنگ پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ 

ثالثی کا یہ کردار اب تک قطر نے سنبھالا ہوا تھا۔ یوکرین جنگ کے دوسرے مذاکرات پیرس میں ہوئے، جن میں یورپی یونین کے علاوہ برطانیہ کے وزیرِ اعظم نے بھی شرکت کی۔ فرانس کے صدر میکرون نے ہنگامی میٹنگ بلائی تھی، جس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ یوکرین کی جنگ، یورپ کی جنگ ہے اور یورپ یا یوکرین کے بغیر کوئی یک طرفہ حل قبول نہیں کیا جائے گا۔

برطانیہ نے یوکرین میں امن افواج تعیّنات کرنے کی بات کی، جب کہ نیٹو کے سربراہ نے بھی روس کی یوکرین میں کاروائیوں کو بدترین جارحیت قرار دیا اور کہا کہ پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس دوران امریکا نے یورپ اور یوکرین سے بیک ڈور بات چیت بھی جاری رکھی۔جب کہ بہت سے یورپی ممالک کا کہنا تھا کہ امریکا کے بغیر یوکرین کا دفاع ممکن نہ ہوگا، لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے روس پر مزید پابندیاں عائد کردیں اور ایسا امریکا کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔

فوجی اور سفارتی ماہرین اسے بڑی پیچیدہ اور دھماکا خیز صُورتِ حال قرار دے رہے ہیں۔ سفارتی ماہرین کے مطابق روس، یوکرین جنگ پر دو سخت مؤقف موجود ہیں اور اصل امتحان یہی ہوگا کہ درمیان کی راہ کیسے نکالی جائے۔یعنی روسی قبضے کو قبول کرنا اور یوکرین کا نیٹو میں شامل نہ ہونا۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روس، خود بھی یورپ کا حصّہ ہے۔اس کا تیل اور گیس کا کاروبار چلتا ہی یورپی ممالک سے ہے۔ ایسا سوویت یونین کے زمانے میں بھی تھا اور آج بھی ہے۔

اگر یورپی ممالک، روس کا تیل نہ خریدیں، تو وہ دیوالیہ ہوجائے۔ اس کی ساری شان و شوکت اسی یورپ سے حاصل کردہ منافعے سے ہے۔ تو کیا وہ یورپ کو سائیڈ لائن کر ے پائے دار فتح حاصل کرسکتا ہے۔وہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں یورپی ممالک کا اتحادی تھا۔پھر سرد جنگ میں اس کے مشرقی علاقے یورپ کا حصّہ بنے۔

پیوٹن روس کے دوبارہ عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ خواب یورپ کے بغیر کیسے ممکن ہوگا، جب کہ اس کی معیشت کا دارومدار یورپ پر ہے۔روسی وزیرِ خارجہ نے صُورتِ حال کو بھانپتے ہوئے کہا کہ روس اور دوسرے ممالک مغربی عالمی آرڈر کے مقابلے میں نئے آرڈر لانے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن وہ مغرب کو قبول نہیں۔

اُنہوں نے اِس سلسلے میں برکس میں چین اور بھارت کا ذکر کیا۔ہم یہاں پھر شام کا ذکر کریں گے۔چار سال پہلے لگتا تھا کہ روس کی فوجی سپورٹ نے روس اور ایران کے پراکسی، بشار الاسد کے اقتدار کو مستحکم کردیا، لیکن دسمبر کے ایک ہفتے میں سب کچھ ڈھے گیا اور احمد الشرع شام کے نئے صدر بن کر سامنے آگئے۔

غزہ میں بھی روس کے ساتھی ایران اور اس کی حامی ملیشیاز مشکل میں ہیں۔ ٹرمپ اُنھیں خاطر میں لانے کو تیار نہیں، جب کہ لبنان میں امریکا کا حمایت یافتہ شخص صدر بن چُکا ہے، جس پر حزب اللہ کی فوجی حیثیت کے خاتمے کے لیے سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ امریکا، یورپ اور اُن کے عرب اتحادی فیصلہ کُن لکیریں کھینچ رہے ہیں۔ 

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کو جس تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، اُسے مذاکرات کے ذریعے اُس سے نکلنے کا موقع دیا جارہا ہے، لیکن دینے والے تو ٹرمپ ہیں، جو ایک کام یاب تاجر ہونے کے ناتے صرف منافعے ہی کا سودا کرتے ہیں۔