• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبادت و بندگی، ایثار و ہم دردی، رب کی رضا اور قُرب کا مہینہ

اسلام دینِ رحمت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح و نجات کی حقیقی ضامن ہیں۔ قرآنِ کریم اور تعلیماتِ نبویؐ میں ایثار و ہم دردی، انفاق فی سبیل اللہ، خدمتِ خلق، سماجی بہبود اور رفاہ ِعامہ کو اعلیٰ درجے کی نیکی سے تعبیر کیا گیا ہے، جب کہ اسلام میں ضرورت مندوں کی حاجت روائی کو دین کا ایک اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ میں ’’بھوکوں کو کھانا کِھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا۔‘‘

ایک عظیم کارِخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔ پیغمبرِ رحمت، محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کا امتیازی اور روشن پہلو مظلوموں کی داد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، خدمتِ خلق اور معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کی مدد واعانت ہے۔

محبّ الفقراء و المساکین، سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے اسوۂ حسنہ اور آپﷺ کی حیات ِطیبہ کے اس پہلو کو الطاف حسین حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا..... مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والا..... مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا.....وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا.....فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ.....یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ۔

امام الانبیاء، سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب، صحیفۂ ہدایت، نسخۂ کیمیا، قرآنِ کریم، فرقان ِحمید جو اسلامی تعلیمات کے دستور اور مثالی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتابِ مبین میں اللہ عزوجل نے اپنے مقرّب اور نیک بندوں کی صفات و علامات بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ ’’وہ کھانے کی خواہش اور ضرورت کے باوجود اسے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ کی (رضا اور) خوش نودی کے لیے تمہیں کِھلا رہے ہیں۔ 

ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔‘‘(سورۃ الدھر)۔’’رمضان المبارک‘‘ عبادت و ریاضت، ایثار و ہم دردی، رب کی رضا کی تلاش اور اس کے قرب کا مہینہ ہے، اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘

رسالتِ مآب ﷺ نے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے اہم شعبے یعنی ’’بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو سیراب کرنا‘‘ جیسے کارِخیر اور نیک عمل کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔ محسنِ انسانیت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا۔’’ اے ابنِ آدم! مَیں بیمار ہوا، تُو نے میری عیادت نہیں کی۔‘‘ وہ عرض کرے گا۔ ’’اے میرے ربّ! تُو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے، تُو کب بیمار تھا اور مَیں تیری عیادت کیسے کرتا؟‘‘ 

اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے، اس کے باوجود تُو نے اس کی مزاج پُرسی نہیں کی، اگر تُو (عیادت کے لیے) اُس کے پاس جاتا، تو مجھے وہاں پاتا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’ابنِ آدم! مَیں نے تجھ سے کھانا مانگا، لیکن تُونے مجھے کھانا نہیں دیا۔‘‘ 

بندہ عرض کرے گا، اے ربّ العالمین! تُو کب بھوکا تھا اور مَیں تجھے کیسے کھانا کِھلاتا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’کیا تجھے یاد نہیں، میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، لیکن تُونے اُسے کھانا نہیں کِھلایا، اگر تُونے اُس کا سوال پورا کیا ہوتا، تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔‘‘ 

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’اے ابنِ آدم! مَیں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تُونے مجھے پانی نہیں پلایا۔‘‘ بندہ عرض کرے گا۔ ’’اے دونوں جہانوں کے پروردگار! تُو کب پیاسا تھا، اور مَیں کیسے تجھے پانی پلاتا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا، تُو نے اُس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تُو نے اُس کی پیاس بجھائی ہوتی، تو آج اُس کا اجر و ثواب یہاں پاتا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ)۔ 

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جس مسلمان نے (اپنے) مسلمان بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا، تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اُسے جنّت کے پھل کِھلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا، تو اللہ اُسے روزِ قیامت مُہر بند شراب (یعنی نشے سے پاک جنّت کا مشروب) پلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا برہنہ جسم ہونے کی حالت میں، تو اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن جنّتی پوشاک پہنائے گا۔‘‘ (ترمذی)۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس نے اپنے مسلمان بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کِھلایا اور پانی سے اس کی پیاس بجھائی، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جہنم سے سات خندقوں کے فاصلے پر رکھے گا، اور ہر دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کے سفر کا فاصلہ ہے۔ (الترغیب و الترہیب)۔

رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات اور فرامین سے بھوکوں کو کھانا کِھلانے کی ترغیب، اس کی عظمت و اہمیت اور اس عملِ خیر پر اجر و ثواب کا پتا چلتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا ’’کون سا اسلام افضل ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا! ’’تم (بھوکوں کو) کھانا کھلائو اور سلام کرو، ہر اس شخص کو، جسے تم پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔‘‘(صحیح بخاری/ باب اطعام الطعام من الایمان)۔

صحابی رسول حضرت عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب مدینۂ منورہ تشریف لائے، تو مَیں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جوں ہی میری نگاہ آپﷺ کے چہرۂ انور پر پڑی، مَیں سمجھ گیا کہ یہ کسی راست گو اور سچّے انسان کا چہرہ ہے، پہلی بات جو اس وقت آپﷺ نے فرمائی، وہ یہ تھی۔’’لوگو! سلام کو رواج دے کر اسے پھیلاؤ (بھوکوں کو) کھانا کھلائو، رشتے داروں سے جُڑو،رات میں جب لوگ سو رہے ہوں، تو تم نماز پڑھو، اور سلامتی کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجائو۔‘‘ (جامع ترمذی)۔

انفاق فی سبیل اللہ کے قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویﷺ میں بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں، راہِ خدا میں مال خرچ کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس کی فضیلت میں فرمایا گیا- ’’مثال ان لوگوں کی، جو اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، جیسے ایک دانہ، جس سے سات بالیاں اُگیں، ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کا چاہتا ہے، اجر دُگنا کردیتا ہے، اللہ وسعت والا اور باخبر ہے۔‘‘

رحمت و مغفرت کا ابرِ کرم ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ ’’رمضان کریم‘‘ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ، جسے ’’عشرۂ رحمت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے یہ ایّام اور پُرنور ساعتیں امّتِ محمدﷺ پر رب کریم کا فضل و احسان اور ایک عظیم انعام ہیں۔ ’’رمضان المبارک‘‘ عبادت و ریاضت، ایثار و ہم دردی، غم گساری، ربّ کی رضا کی تلاش اور اس کے قُرب کا مہینہ ہے۔ اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ اہلِ ایمان کے انعام و اکرام کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں بندے کے ہر عمل کا اجر دس سے سات سو گُنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب رمضان کا مہینہ آتا، تو آپ ﷺ قیدی کو رہا فرما دیتے اور ہر سائل کی داد رسی فرماتے تھے۔‘‘ (مشکٰوۃ)۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت کے مطابق ’’شعبان المعظّم‘‘ کی آخری تاریخ کو رسولِ اکرمﷺ نے ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپﷺ نے (رمضان المبارک کی عظمت و اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا۔ ’’لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت، یا نفل) ادا کرے گا، تو اُسے دوسرے زمانے کے فرائض کے برابر اس کا اجر ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرائض کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے، یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ 

جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کروایا، تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اُسے اس روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ ’’یا رسول اللہﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان (وسائل) میسّر نہیں ہوتے، تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟‘‘

آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا،جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر، یا صرف پانی ہی کے گھونٹ پر کسی روزے دار کو افطار کروادے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلا دے، اُسے اللہ تعالیٰ میرے حوض (حوضِ کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اُسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، تاآنکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔‘‘ 

بعدازاں، آپﷺ نے فرمایا۔’’جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ (بیہقی/ شعب الایمان)۔ حضرت زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص کسی روزے دار کو افطار کروائے، تو روزے دار کے ثواب میں سے کچھ کمی کیے بغیر افطار کروانے والے کو اُتنا ہی اجر وثواب ملے گا، جتنا روزے دار کو ملے گا۔‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔ 

حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص کسی روزے دار کو افطار کروائے یاکسی مجاہد کا سامانِ سفر تیار کروائے، تو اُسے بھی اس کے مثل اجر ملے گا۔‘‘ (بیہقی/ شعب الایمان)۔

رسالت مآبﷺ نے ماہِ صیام کی عظمت و اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے اس میں نیکیوں پر بے شمار اجر و ثواب کی نوید سُناتے ہوئے روزے داروں کو روزہ افطار کروانے کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے۔ روزہ افطار کروانے میں ہر فرد کی حیثیت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہﷺ! ہم میں سے ہر ایک تو اس کی استطاعت اور قدرت نہیں رکھتا کہ وہ روزے دار کو روزہ افطار کرواسکے؟

اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اللہ تعالیٰ یہ اجر و ثواب اُسے بھی عطا فرمائے گا،جو روزے دار کو دودھ کی تھوڑی لسّی (شربت وغیرہ) یا پانی پلا دے۔‘‘ (کیوں کہ اللہ کے یہاں نیّت کا اجر ہے) رمضان المبارک میں روزہ افطار کروانے کا یہ عمل اور یہ روایت مسلم دنیا کے بیش تر علاقوں میں پوری شان و شوکت سے نظر آتی ہے، بالخصوص عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین شریفین کے مقدّس مقامات پر سحر و افطار کے بابرکت لمحات اور پُرنور ساعتوں میں یہ مناظر عام دیکھنے میں آتے ہیں بلکہ وہاں تو اس کارخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل میں مسابقت کے مناظر عام ہیں۔

خوش قسمتی سے روزہ افطار کروانے کی یہ اسلامی روایت اب ہمارے ملک بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ صاحبِ خیر اور اہلِ ثروت افراد اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ روزہ افطار کروانا، انفاق فی سیبل اللہ کا ایک اہم شعبہ ہے، اس میں لوگوں کو کھانا کِھلانے اور پیاسوں کو سیراب کرنے کا عمل اور اس کا اجر و ثواب بھی شامل ہوجاتا ہے۔ غربت و افلاس، منہگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور کئی دیگر عوامل کے باعث ہمارے معاشرے میں خود داری، عزت ِنفس، سفید پوشی اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے اعلیٰ اخلاقی وصف کے حامل یہ افراد نہ دستِ سوال دراز کرتے ہیں اور نہ کسی سے اُمید لگاتے ہیں۔

اُنہیں اپنا مہمان بنانا اور افطار میں شریک کرنا باعثِ اجر و ثواب عمل اور ایک عظیم نیکی ہے۔ تاہم، ایسے میں بندگانِ خدا کی عزتِ نفس اور خُودداری کا بھی پورا خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی نیک امَر اور نیکی تب ہی بارگاہِ الہٰی میں مقبول ہے کہ جب وہ نام و نمود، شہرت و نام وَری اور ریاکاری جیسی برائیوں سے پاک ہو۔ واضح رہے، اعمال کا دارو مدار نیّتوں پر ہے اور نیّت کا اِخلاص اور ارادے کا پُرخلوص ہونا، نیک اعمال اور نیکیوں کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔