میں نے پچھلے متعدد کالموں میں کئی زاویوں سے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کھیل ختم ہوتے جا رہے ہیں یا کھیلوں کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہاکی پر ہمارا راج تھا، ایک زمانہ تھا اسکواش پر ہمارا راج تھا، ہمارے دو ایتھلیٹ بھائی نصرت ساہی اور مظہر ساہی اولمپین بنے، ہماری ہاکی ٹیم کے مقابلے کی کوئی ٹیم ہی نہیں تھی، ہاکی کے میدانوں میں کبھی شہناز شیخ اور اصلاح الدین کا نام گونجتا تھا، کبھی سمیع اللہ اور کلیم اللہ کے چرچے تھے پھر حسن سردار اور شہباز سینئر کا جادو چلتا رہا پھر ہمارے اس کھیل کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی؟
اسکواش کی دنیا میں جہانگیر خان اور جان شیر خان کا ڈنکا بجتا تھا۔ اسی طرح کرکٹ کی دنیا میں کبھی ہمارے پاس فضل محمود، ظہیر عباس اور جاوید میانداد جیسے بیٹسمین تھے پھر ہمارے پاس ماجد خان اور محسن حسن خان جیسے بیٹر ہماری بیٹنگ لائن کا حصہ تھے۔ دنیائے کرکٹ کو تیز کھیلنا ہمارے سعید انور اور عامر سہیل نے سکھایا، کبھی سرفراز نواز، وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے تیز ترین ماہر فاسٹ باؤلر ہمارے پاس تھے،ا سپن بولنگ میں عبد القادر، ثقلین مشتاق اور سعید اجمل تھے۔ دنیائے کرکٹ میں انقلابی فیصلے کرنے والا عظیم آل راؤنڈر عمران خان ہمارا کپتان تھا، اسی نے کرکٹ کی دنیا میں غیر جانبدار امپائر متعارف کروائے، کرکٹ میں جوئے اور بد دیانتی کے خلاف وہ لڑا، عمران خان ایک ایسا کپتان تھا جو ہمیشہ جیت کا عزم لئے میدان میں اترتا تھا، عمران خان کی بولنگ، بیٹنگ اور کپتانی سب یادگار ہیں۔ اسی نے 92ء کا ورلڈ کپ جتوایا۔
آج ہم جب ہاکی، اسکواش اور کرکٹ کو دیکھتے ہیں تو شاندار کھلاڑیوں کی کمی محسوس ہوتی ہے، شاندار ماضی پر فخر محسوس ہوتا ہے مگر پھر حال کا سوچتا ہوں تو برا حال محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں مجھے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے میچ کو دیکھ کر یاد آ رہی ہیں، اتوار کے روز دبئی میں ہونے والے میچ کے دوران پاکستان کی ٹیم بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں ناکام دکھائی دی جبکہ بھارتی ٹیم کی بولنگ بھی شاندار رہی، بیٹنگ تو ان کی ویسے ہی اعلیٰ ہے بلکہ بھارتی بیٹرز کا شمار دنیا کے بہترین بیٹرز میں ہوتا ہے، انہوں نے فیلڈنگ بھی شاندار کی، بھارت نے روایتی حریف پاکستان کو بڑے آرام سے چھ وکٹوں سے ہرا دیا، ہار جیت کھیل کا حصہ ضرور ہے مگر مقابلہ تو کرنا چاہئے، خیر! اس میچ میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم چیمپئنز ٹرافی سے تقریباً باہر ہو چکی ہے۔ اس اہم موڑ پر تین سوال بڑے اہم ہیں، پاکستان میں ہاکی، کرکٹ، اسکواش اور فٹبال کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ آرام سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کھیلوں کی فیڈریشنز بجٹ کا زیادہ حصہ اپنے اوپر اور کم حصہ پلیئرز پر استعمال کرتی ہیں، ان کھیلوں میں کہیں نہ کہیں سیاست داخل ہو چکی ہے، جس کا اظہار کھلاڑیوں کی سلیکشن میں صاف نظر آتا ہے۔
ایک اور بات بہت اہم ہے، ایک زمانہ تھا ہمارے ہاں تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر کھیل ہوتے تھے پھر یہ کھیل صوبائی سطح پر ہوتے تھے، یوں بہترین ٹیلنٹ سامنے آتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں جو " تعلیمی انقلاب" آیا ہے اس میں اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں، جس ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کے میدان نہ ہوں تو وہاں شاندار کھلاڑی کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟ کھلاڑی تو دور کی بات، یہاں تو بیمار قوم تیار کی جا رہی ہے جو جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہی نہ ہو، سو اگر ہم چاہتے ہیں کہ کھیلوں میں ہماری کارکردگی عمدہ ہو تو ہمیں اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کے میدان بنانا ہوں گے، ہمیں کالج سے لے کر یونیورسٹی تک پڑھنے والوں کو پڑھائی کے ساتھ کھیلوں کی طرف راغب کرنا پڑے گا، ہمیں تحصیل، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر کھیلوں کو رواج دینا ہو گا، ہمیں کھیلوں کی فیڈریشنز کو ایک بات سمجھانا ہو گی کہ وہ اپنے سے زیادہ کھلاڑیوں پر توجہ دیں، نئی ٹیموں کی سلیکشن کے وقت سیاست کو نظر انداز کرنا ہو گا کہ بقول سرور ارمان
ہم تو موجود تھے اندھیروں میں اجالوں کی طرح
لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح