• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11مئی2013ء کے الیکشن کے بعد نوازشریف حکومت کا بمشکل ابھی ایک سال گزرا ہے کہ اس کیخلاف طبل جنگ بج چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی اپنے انتخابی منشور کے مطابق عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہی۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو دیکھنے کے لئے پہلے سو دن بڑے اہم ہوتے ہیں۔اب تو قریباًایک سال کاعرصہ بیت چکا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ مسلم لیگ (ن) دودھ اور شہد کی نہریں تو یقیناً نہیں بہاسکتی تھی مگر اسے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینا چاہئے تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، معیشت مستحکم ہو رہی ہے، ڈالر97روپے تک آگیا ہے آخر اس کے اثرات ایک عام فرد تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈالر کی قیمت گرنے اور روپے کی قدر بڑھنے سے ضروریات زندگی کی اشیاء آٹا، گھی، دالیں، چاول اور سبزیوں کے نرخ کم ہوتے، عوام کو سکھ کاسانس آتا۔ یہ نوازشریف حکومت کے لئے اب کڑا امتحان ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرے۔ 11مئی سے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اب دوبارہ احتجاجی سیاست کا آغاز کرنے والے ہیں۔ زرداری حکومت کے سابقہ دور میں بھی وہ طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ البتہ ایک بار پھر وہ پورے طمطراق کے ساتھ کینیڈا سے پاکستان کے کوچہ سیاست میں آنکلے ہیں۔انہیں کینیڈا کو مستقل خیرباد کہہ کر پاکستان میں قیام کرنا چاہئے اور سنجیدگی سے سیاست کے میدان میں اترنا چاہئے۔ ان کے اچانک نمودار ہونے سے عوام میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں کہ شاید وہ کسی اندرونی اور بیرونی اشاروں پر جمہوری نظام کو تلپٹ کرنا چاہتے ہیں۔ واقفان حال کاکہنا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کاپاکستان کی احتجاجی سیاست میں دوبارہ وارد ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کو بھی نوازشریف حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک میں شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بیرونی قوتیں موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہاں’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔آئندہ چند ماہ نوازشریف حکومت پر بڑے بھاری ہیں۔احتجاجی تحریک کوتیز کرکے مسلم لیگ (ن)کی حکومت کو جلد ’’فارغ‘‘ کیا جائیگا۔ قارئین کرام کویاد ہوگاکہ ’’گردش ایام‘‘ کے انہی کالموں میں’’بنگلہ دیش ماڈل ‘‘کے حوالے سے پاکستان میں بیرونی قوتوں کی گھنائونی سازش کا تذکرہ میں نے کیا تھا حالات اسی طرف آج جارہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو زیادہ دیر چلنے نہیں دیا جاتا۔ اب پچھلی زرداری حکومت نے اگر پانچ سال پورے کرلئے ہیں تو نادیدہ جمہوریت دشمن بیرونی قوتوں کا یہ گیم پلان ہے کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال کسی بھی صورت پورے نہ کرے۔ نوازشریف حکومت اگرچہ گڈ گورننس کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔عوام کو’’ڈلیور‘‘کرنے میں بھی ناکام رہی ہے لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ قوم جمہوریت دشمن عناصر کے جھانسے میں آجائیگی۔11مئی کا دن پاکستان میں سیاسی گہماگہمی اور ہلچل کے حوالے سے خاصا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس روز جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر سراج الحق بھی لاہور میں ایک بڑے عوامی جلسے میں اپنے آئندہ کے سیاسی اور انقلابی پروگرام کااعلان کرنے والے ہیں۔مجاہد ملت قاضی حسین احمدؒکے بعد سراج الحق کے امیر بننے سے جماعت اسلامی میں ہرسطح پر تحرک واضح طور پر دکھائی دے رہاہے۔سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی جماعت کے دعوتی اور تنظیمی کام کو بہترکیا۔اب عوامی حلقوں میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ سراج الحق کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت اسلامی مستقبل میں بڑی سیاسی کامیابیاں حاصل کرسکے گی۔جہاں تک تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کاالیکشن میں دھاندلی کیخلاف احتجاج کا معاملہ ہے جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت تمام جماعتوں کا بھی یہی موقف ہے کہ11مئی کے الیکشن شفاف اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ اب جن چار حلقوں میں الیکشن کا مطالبہ عمران خان کر رہے ہیں۔حکومت کو وہاں دوبارہ گنتی کرادینی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے۔ نوازشریف حکومت کو اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔کہیں دھاندلی کا احتجاج طول نہ پکڑ جائے۔ اس کا سارا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہو گا۔ پاکستان میں وقت گزرنے کیساتھ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اسے مزید توانا اور مستحکم بنانے کیلئے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ماضی میں ہماری بدنصیبی یہ رہی ہے کہ جمہوریت کے پودے کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا بلکہ اسے تو جڑ سے کئی بار اکھاڑ دیا گیا۔اللہ نہ کرے کہ اب کی بار یہ ہوا تو ملک و قوم کے مفاد میں اچھا نہیں ہوگا۔فوج ہماراقابل احترام ادارہ ہے۔ملک وملت کیلئے فوج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔پاک فوج ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے۔ فوج کوسیاست میں نہیں الجھناچاہئے۔یہ فوج کے باوقار ادارے کے تشخص کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ جنرل (ر) پرویزکیانی نے بھی بالغ نظری کامظاہرہ کیا اور جمہوریت کو پنپنے کیلئے راستہ دیا۔جنرل راحیل شریف بھی شہداء کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور آئین وجمہوریت کوبالاتر سمجھتے ہیں۔یوم شہداء پربھی انہوں نے آئین اور جمہوریت کومستحکم کرنے کی بات کی ہے۔ان سے قوم بجاطور پر یہی توقع کرتی ہے کہ وہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو آگے بڑھائیں گے اور فوج کو سیاست اور اقتدار سے دور رکھیں گے۔2014ء کا سال پاکستان کی سیاست کیلئے خاصااہم ہے۔افغانستان سے امریکی ونیٹو افواج کاانخلاء بھی جلد شروع ہونے والاہے۔بیرونی قوتیں پاکستان میں داخلی انتشار پیدا کر کے اور ہمیں اپنے اصل ایشوز سے ہٹا کر اپنے مفادات کا حصول چاہتی ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کامیابی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اس میں ڈیڈلاک پیدا کر دیا گیا۔ نوازشریف حکومت کو اس معاملے میں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عوامی توقعات اور ملکی مفاد کی خاطر مذاکراتی عمل کو سنجیدگی سے چلایا۔ ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے کہ طالبان اور حکومت مذاکرات کے نتیجے میں ملکی حالات اور امن و امان کی صورت حال میں نمایاں تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرتاہے توجائز ہے مگر پاکستان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو یہ ناجائز ہے؟ امریکہ کو یہ مذاکراتی عمل ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ آج ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ ہم نے مذاکراتی عمل کو پایہ تکمیل تک لازمی پہنچانا ہے تاکہ دشمن کاایجنڈا کامیاب نہ ہوسکے۔
تازہ ترین