• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں لگتا ہے، یورپ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ جرمنی میں کرئسچن ڈیمو کریٹک یونین ایک مرتبہ پھر سب سے زیادہ نشستیں لینے میں کام یاب رہی اور اس کے رہنما، فریڈرک مرز مُلک کے نئے چانسلر، یعنی سربراہ ہوں گے۔

فریڈرک مرز نے کام یابی کے بعد اپنے بیانات میں دو امور کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یورپ کو اب آہستہ آہستہ امریکا پر انحصار کم کرنا پڑے گا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ امریکا کی دِل چسپی اب یورپ میں کم ہوگئی ہے۔ وہ یقیناً صدر ٹرمپ کے گزشتہ ایک ماہ کے بیانات اور سیاسی و سفارتی عمل کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

ٹرمپ کا روس کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا، پھر سعودی عرب میں اعلیٰ سطحی امریکی اور روسی وفود کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں یوکرین جنگ سے متعلق اہم باتیں سامنے آئیں، لیکن اِن مذاکرات میں یورپی ممالک شامل تھے اور نہ ہی یوکرین، جو کہ براہِ راست متاثرہ فریق ہے۔

نیز، صدر ٹرمپ کا بار بار اصرار ہے کہ یورپ اپنے دفاع اور یوکرین کے معاملات میں اپنا مالیاتی حصّہ بڑھائے۔ ٹرمپ ہر حال میں منافعے کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ نومنتخب جرمن چانسلر نے کہا کہ وہ جرمنی کی مضبوط پوزیشن بحال کریں گے۔

یاد رہے، اِنہی کی پارٹی کی لیڈر، انجیلا مرکل کے بیس سالہ دَور میں جرمنی نہ صرف یورپ کی سب سے طاقت وَر معیشت بنا بلکہ عالمی طور پر بھی دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوّت بن کر اُبھرا۔ انجیلا کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ یورپ یا عالمی امور سے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے اور اُس میں جرمنی شامل نہ ہو، لیکن اِس مرتبہ سی ڈی یو نے توقّع سے کم ووٹ حاصل کیے اور وہ30 فی صد کے فگر تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ظاہر ہے کہ اسے اب ایک اتحادی حکومت بنانی پڑے گی۔

کرئسچن ڈیموکرٹیک یونین ایک سینٹرسٹ جماعت ہے، جب کہ اس کے دَور میں جرمنی اور یورپ میں لبرل قوّتوں کو فروغ ملا، تاہم مرکل کی تیسری ٹرم کے مکمل ہوتے ہوتے حالات میں بڑی تبدیلی آئی، جس کی بنیادی وجہ یورپ میں نیشنل ازم کی بڑھتی لہر ہے، جو بڑے بڑے سیاسی ستونوں کو اُکھاڑ رہی ہے۔ جرمنی میں سی ڈی یو کی کم زور کام یابی کی وجہ دائیں بازو کی پارٹی،’’الٹرنیٹیو فار جرمنی‘‘ کی کام یابی ہے،جس نے 20 فی صد سے زاید نشستیں حاصل کیں اور دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ 

اُس کی لیڈر، ایلس وائیڈل چانسلر بننے کے خواب دیکھ رہی تھیں، لیکن جانے والے چانسلر، اولاف شولز کی جماعت سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی نے16فی صد سے زاید نشستیں لے لیں اور وہ بھی ایک سینٹرسٹ پارٹی ہے، اِسی لیے سی ڈی یو اور سی ڈی پی مل کر اتحادی حکومت بنائیں گی،لیکن ایلس نے خبردار کردیا کہ یہ حکومت شاید کچھ عرصے بعد ہی قبل از وقت انتخابات کروانے پر مجبور ہوجائے گی۔

فریڈرک مرز ایک تجربہ کار سیاست دان اور کرشمہ ساز شخصیت ہیں، اِسی لیے اُنہوں نے فتح کے ساتھ کہا کہ’’کل ہی سے کام شروع کردیں۔‘‘لیکن جس قسم کی تیز رفتار تبدیلیاں مغربی دنیا میں رُونما ہو رہی ہیں، اُن سے یہی لگتا ہے کہ مرز اگر یورپ کی خود انحصاری کا نعرہ لے کر چلتے ہیں، تو اُنھیں یورپی عوام میں خاصی مقبولیت حاصل ہوجائے گی۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد سے یورپ کی تمام تر توجّہ لبرل اقدار پر رہی۔

انسانی حقوق، گرین انرجی اور ہر قیمت پر امن اس کا منشور رہا، لیکن یوکرین پر روس کے حملے اور اس سے پہلے برطانوی بریگزٹ نے یورپ کو جگا دیا اور اب وہ تیزی سے قوم پرستی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ فریڈرک کی پارٹی نے دائیں بازو کی اے ایف ڈی کو شکست دی، تاہم اس کا دباؤ اِتنا شدید ہے کہ فریڈرک یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اس پارٹی کے مطالبات پر غور کرنا پڑے گا اور کوئی حل بھی تلاش کرنا پڑے گا، وگرنہ انتہا پسند جماعتیں زور پکڑلیں گی۔

دوسرے الفاظ میں وہ اس جماعت کے مطالبات پر کوئی سمجھوتا کریں گے۔ یاد رہے، یورپی قوم پرست جماعتوں کے مطالبات تارکینِ وطن کی بے دخلی اور مسلمانوں کے مذہبی و سماجی تشخّص سے متعلق ہیں۔ جرمنی، مرکل کے دَور میں دس لاکھ تارکینِ وطن کے لیے مُلک کھولنے پر تیار تھا اور اب مزید تارکینِ وطن لینے سے انکاری ہے۔

یورپ اور امریکا میں بڑھتی دُوری کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سلامتی کاؤنسل میں یوکرین پر یورپ کی پیش کی جانے والی قرارداد کی امریکا نے مخالفت کی، جب کہ اس نے روس کی پیش کردہ قرار داد کی حمایت میں ووٹ ڈالا، جو منظور بھی ہو گئی۔

قرار داد کے پاس ہوتے وقت فرانس کے صدر میکرون، واشنگٹن میں موجود تھے اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کر رہے تھے۔میکرون نے امریکی انتظامیہ پر واضح کیا کہ یوکرین پر کوئی ڈیل سرینڈر کے طور پر قبول نہیں کی جائے گی اور اس میں سیکیوریٹی کی ضمانت ضروری ہے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین جنگ میں سیز فائر معاہدہ ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔ میکرون کے بعد برطانیہ کے وزیرِ اعظم، اسٹارمر نے بھی وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اسٹارمر کا کہنا تھا کہ یورپ کی فوجیں قیامِ امن کے لیے یوکرین بھیجی جاسکتی ہیں، جو جنگ میں تو حصّہ نہیں لیں گی، تاہم کسی بھی روسی جارحیت کو روکنے کا کام دیں گی۔ یورپ کی پیش کردہ قرارداد میں روسی جارحیت کی مذمّت کی گئی تھی، جب کہ روسی قرار داد میں فوراً جنگ ختم کرنے کا کہا گیا تھا۔ 

یاد رہے، ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں غزہ اور یوکرین کی جنگ 24 گھنٹوں میں بند کروانے کا عدہ کرتے رہے تھے، بلکہ وہ یہ تک کہتے رہے کہ’’ جنگ ہی نہ ہوتی، اگر وہ صدر ہوتے‘‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ پیوٹن نے اس کی تصدیق بھی کردی۔ فرانس اور برطانیہ نے روسی قرار داد کے حق میں ووٹ نہ ڈالے، لیکن ویٹو پاور رکھنے کے باوجود اسے ویٹو بھی نہیں کیا۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ یورپ اور امریکا کے بیچ جو خلیج نظر آتی ہے، وہ اِتنی گہری نہیں اور دونوں ایک دوسرے کو یہ بات سمجھانے میں کام یاب ہیں کہ اِنہیں روس کے ساتھ کہاں تک جانا چاہیے۔ ایک مغربی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پیوٹن، ٹرمپ ایک دوسرے کی جو قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، درحقیقت یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم دونوں ٹھیک اور باقی سب غلط ہیں۔

تاہم، دوسرے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ روس کے صدر کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اگر وہ ان کی بات نہیں مانتے، تو اُن کے پاس یہ کہنے کو ہوگا کہ’’دیکھو! ہم تو تمہاری ہر بات مانتے رہے، تم ہی امن اور جنگ بند کر نے میں سنجیدہ نہیں تھے۔‘‘

امریکا اور یوکرین میں ایک معاہدے پر دست خط ہو رہے ہیں، جس سے امریکا کو یوکرین میں موجود انتہائی قیمتی اور نایاب معدنیات تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ اِس معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ دست خط کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ صدر ذیلنسکی کے امریکی دورے کے دوران اِس منرل ڈیل پر دست خط ہوں گے۔ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس سے یوکرین کو جنگ کرنے کا حق مل جائے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ یوکرین کے عوام بڑے بہادر ہیں، مگر امریکی امداد اور اس کی فوجی ہتھیاوں کے بغیر یہ جنگ بہت مختصر ہوتی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ’’کیا امریکا، یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھے گا؟‘‘تو اُنہوں جواب دیا’’بہت ممکن ہے، جب تک روس سے معاہدہ نہیں ہوتا۔‘‘

اُنہوں نے حیرت انگیز طور پر برطانیہ کے وزیرِ اعظم کی اِس تجویز سے بھی اتفاق کیا کہ یوکرین میں ایک یورپی امن فوج تعیّنات کی جائے، جب تک کہ پائے دار امن قائم نہیں ہوجاتا۔ لیکن معدنیات کی سفارت کاری، یوکرین جنگ میں ایک بڑی پیش رفت ہے اور اب اس میں معاشی مفادات داخل ہوگئے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جو معاشی معاملات دنیا سے اوجھل رکھے گئے تھے، وہ سامنے آگئے ہیں۔

یوکرین کی سرزمین پر موجود معدنیات کا ذخیرہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔یوں یوکرین کی ایک اور اہمیت سامنے آئی، جس نے جنگ کو فوجی میدان سے نکال کر معیشت کا مقابلہ بنا دیا ہے۔ اس کی سرزمین میں جوانتہائی اہم معدنیات موجود ہیں، ان میں گریفائٹ، الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں بنانے کے کام آتا ہے اور اِس کی مقدار 19 ملین ٹن بتائی جاتی ہے، جو دنیا بَھر کا پانچ فی صد ہے۔

اس کے علاوہ ٹائٹینیم، لیتھیم(لیتھیم آج کل کاروں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کا اہم جزو ہے )یورینیم اور کئی دیگر نایاب دھاتیں بھی شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی کی زبان میں انہیں’’17 ریئر منرلز‘‘ کہا جاتا ہے، جو کئی ملین ٹن بتائی جاتی ہیں۔ اِس کے کچھ حصّے پر روس نے جنگ میں قبضہ بھی کیا، جو قیمت میں تین سو ملین ڈالرز سے زیادہ ہے۔

امریکا، یورپ اور روس کی نظریں بھی ان ہی نایاب قدرتی وسائل پر ہیں، جو نئی صدی کی جیو اسٹریٹیجک اور جیو اکانومکس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکا کے لیے اِن کی اہمیت اِس لیے بھی ہے کہ وہ اِن کے لیے اب تک چین پر انحصار کرتا رہا ہے۔ جب ٹرمپ نے چین پر ٹیکسز لگائے، تو جواباً چین نے بھی ایسا ہی کیا اور یہ معدنیات اس میں شامل تھیں۔ ان کو کریٹیکل منرلز بھی کہا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ متبادل توانائی، فوجی، صنعتی اور انفرااسٹرکچر کی ترقّی کے لیے بے حد اہم ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے اِن معدنیات کی ڈیل میں غیر معمولی دل چسپی لی اور عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک کوئی ڈیل ہو بھی چُکی ہو۔ دوسری طرف، یورپ بھی ان میں دل چسپی رکھتا ہے، تاہم امریکا اور یورپ کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے، کیوں کہ اس دوڑ میں وہ ایک دوسرے کے معاون بن سکتے ہیں۔ شاید وہ دونوں چاہتے بھی یہی ہیں کہ یہ معدنیات روس کو نہ مل سکیں۔یوکرین جنگ کی ایک بڑی وجہ اب یہ معدنیات بھی سامنے آئی ہیں اور اِسی لحاظ سے اِس مُلک کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔

صدر پیوٹن اِن قدرتی وسائل کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔اُنہوں نے جنگ کے آغاز میں یورپ کی گیس روک کر اُسے بہت زچ کیا۔تاہم، موجودہ صُورتِ حال میں انہوں نے معدنیات سے متعلق کسی ڈیل کا حصّہ بننے کا کوئی اشارہ نہیں دیا، بلکہ وہ کچھ ایسا ظاہر کر رہے ہیں، جیسے اُن کی تمام تر تشویش روس کی سیکیوریٹی اور یوکرین کے روسی بولنے والوں کی حفاظت سے متعلق ہے۔

یوکرین، روس جنگ میں ہتھیاروں سے زیادہ معیشت اہمیت اختیار کر گئی ہے اور صدر ٹرمپ یہ کھیل کھیلنے کے ماہر ہیں، اِسی لیے اُنہوں نے پہلے دن سے معدنیات کے لیے یوکرین کے صدر پر دباؤ رکھا ہوا ہے۔ امریکا، یوکرین ڈیل سے متعلق امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر، مائیک والٹرز نے کہا ہے کہ’’یہ امریکا اور یوکرین کو مستقبل کے نئے بندھن میں باندھ دیں گے۔‘‘

اِس قسم کی معاشی سفارت کاری کی ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی اُمید کی جارہی تھی۔ اِس ضمن میں برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم، بورس جانسن نے کہا ہے کہ یہ ڈیل ایک بڑا انعام ہوگا، کیوں کہ اِس کے بدلے یوکرین کو امریکا کی حفاظتی چھتری مل جائے گی۔ تاہم، روس یقیناً اِس ڈیل سے پریشان ہوگا کہ امریکا اُس کی سرحد کے قریب آجائے گا، خاص طور پر جب ٹرمپ جیسا صدر امریکا کی قیادت کر رہا ہو۔