• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محض دھمکانے کے لئے ہوتے ہیں، استعمال کیلئے نہیں ،کیونکہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی شکل میں ان کی تباہ کاریوں کا مظاہرہ ہوچکا۔ اس سانحہ کو بیتے سات دہائیاں ہوگئیں اور اس دوران دنیا یکسر تبدیل ہوچکی، سائنس اور ٹیکنالوجی حیران کن کمالات دکھاچکی۔ آج کے جوہری ہتھیار بھی 1945 والے نہیں، ان کی قیامت خیزی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا۔ یہی وجہ ہے کہ جوہری طاقتیں اس صلاحیت پر اپنی اجارہ داری رکھنا چاہتی ہیں اور کسی بھی دریافت کو کھلے بندوں اس میدان میں اترنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس دوران جس کسی نے بھی جوہری صلاحیت حاصل کی، اس کے لئے کوئی نہ کوئی پیچدار اور پراسرار راہ اختیار کی۔ تسلیم شدہ جوہری طاقتوں کی بھی اس حوالے سے یکساں پالیسی نہیں رہی۔ کہیں درپردہ اعانت کردی، تو کہیں آنکھیں بند کرلیں اور جسے مناسب سمجھا، رگڑ بھی دیا۔ سو ایک طرح سے یہ بلی ، چوہے کا کھیل ہے، جو پچھلے ستر برسوں سے کھیلا جارہا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی بعینہ یہی کچھ ہورہا ہے۔ عجب پراسراریت ہے، شدید کنفیوژن ۔ کہہ مکرنیوں کا ایک کھیل، اور سفارت کاری کے پردے میں سیاست ہورہی ہے۔ وقت کی بو قلمونی ملاحظہ ہو کہ آج امریکہ اور اس کے یورپی حلیف ایران کے جس جوہری پروگرام کے حوالے سے پریشان ہیں اور اس کے خاتمے کیلئے سر جوڑے بیٹھے ہیں، اس کا آغاز 1950ء کی دہائی میں واشنگٹن کی اعانت سے ہی ہوا تھا۔ اور اسے ’’ایٹم برائے امن پروگرام‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ پہلوی اقتدار کے خاتمہ تک اسے امریکہ اور مغربی دنیا کا بھرپور تعاون میسر رہا کیونکہ واشنگٹن کو خطہ میں اپنے پولیس مین یعنی شہنشاہ ایران کی خوشنودی درکار تھی۔ 1979ء کے انقلاب کے بعد بھی یہ پروگرام جاری رہا، مگر اب اس کی سرپرستی مغرب کی بجائے روس کررہا تھا، جس کے تعاون سے ایران کا پہلا جوہری پاور پلانٹ ستمبر 2011ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 360 میگاواٹ کا ایک اور منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور درمیانے سائز کے مزید پاور پلانٹس پر بھی کام ہورہا ہے۔
اس سارے عرصے میں متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی ایران کے جوہری پروگرام پر نظر رہی ہے۔ 2003ء میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے یورینیم کی افزودگی کی شرح اور ری پراسیسنگ کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صورت حال جوہری ہتھیاروں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران کا اصرار تھا کہ افزودگی ویپن گریڈ شرح سے کہیں کم ہے لہٰذا جوہری ہتھیاروں والی بات قرین قیاس نہیں۔ الزام تراشیوں اور وضاحتوں کا یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا اور اس دوران ایران سر نیہوڑے جوہری صلاحیت کی جانب بتدریج پیش قدمی کرتا رہا ، حتیٰ کہ 11؍اپریل 2006 کو صدر احمدی نژاد نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ ’’ایران نیو کلیر گروپ میں شامل ہوچکا۔ اور اب دنیا کو ہمیں جوہری طاقت کے طور پر لینا ہوگا۔ ہماری اس کامیابی پر ناراض ہونے والوں کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں، خواہ صدمے سے ہلاک ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ اور اپنے جوہری استحقاق کے حوالے سے ہم کسی قسم کے مذاکرات کیلئے ہرگز تیار نہیں۔‘‘ نتیجتاً 26؍ دسمبر 2006ء کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر1737 کے تحت ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایرانی قوم بے حد پرجوش ہے۔ لطف کی بات یہ کہ ایران کی اس صلاحیت کی توصیف و تحسین متعدد عرب ریاستیں بھی کرتی ہیں۔ بعض کھلے بندوں اور بعض درپردہ۔
سفارتی سطح پر مسئلہ سے نمٹنے کیلئے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان (چین ، فرانس ، روس ، برطانیہ ، امریکہ) اور جرمنی مسلسل ایران کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلی نشست اکتوبر 2009ء میں جنیوا میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد استنبول ، بغدار ،الماتے اور نیویارک میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ فریقین کی وزرائے خارجہ کی 24؍نومبر 2013ء کو ویانا میں ہونے والی کانفرنس میں ایک ششماہی عبوری معاہدہ طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو متفقہ سطح پر منجمد کردے گا۔ جس کے بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو نرم کردیا جائے گا۔ اور اعتماد سازی کی اس فضا میں فریقین مستقل معاہدہ کیلئے مذاکرات جاری رکھیں گے۔ صدر اوباما سمیت عالمی شخصیات نے اس عبوری معاہدہ کو صحیح سمت میں اہم قدم قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ معاہدہ پر عمل درآمد کا آغاز 20جنوری سے ہوچکا ہے اور چھ ماہ کی عبوری مدت 20جولائی 2014ء کو ختم ہوجائے گی۔ مستقل معاہدہ کیلئے مذاکرات کے تین ادوار ہوچکے۔ آخری نشست اپریل کے پہلے ہفتے ویانا میں ہوئی تھی۔ جس کے اختتام پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں کو خبردار کیا تھا کہ ’’ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوگا۔ ہم مذاکرات میں محض اس لئے گئے تھے کہ عالمی برادری کے ساتھ مخالفانہ فضا ختم ہو۔ عبوری معاہدہ جولائی میں ختم ہو رہا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ایک آبرومندانہ مستقل معاہدہ اس کی جگہ لے سکے۔‘‘ وزیر خارجہ جواد ظریف کا دعویٰ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام کلیتاً پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ ایسے میں اقتصادی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں۔ اور انہیں غیر مشروط اور مستقل بنیادوں پر ختم کئے بغیر قابل عمل دائمی معاہدہ کی توقع عبث ہوگی۔
مذاکرات کا اگلا دور 13؍مئی کو طے ہے اور بظاہر فریقین کے موقف میں بعدالمشرقین ہے۔ مگر ایران کے جوہری پروگرام پر نظریں جمائے بیٹھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی 15؍ اپریل کو ریلیز ہونے والی رپورٹ کچھ اور ہی کہہ رہی ہے، جس کے مطابق ایران نومبر 2013ء کے عبوری معاہدہ پر سنجیدگی سے عمل کررہا ہے اور افزودہ یورینیم کے 75% ذخائر کو ویپن گریڈ لیول سے نیچے لاچکا ہے جو طے شدہ شیڈول کے عین مطابق ہے۔ یوں ایران 20جولائی کی ڈیڈ لائن کا بہرطور احترام کرنا چاہتا ہے۔ اس کنفیوژن کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ IAEA جیسے واچ ڈاگ اور معائنہ کار اندھیرے میں ہیں اور محض مفروضوں پر مبنی رپورٹیں اچھال رہے ہیں۔ تہران نے کچھ ایسا اہتمام کر رکھا ہے کہ جوہری دھماکہ تک اپنی سرگرمیوں کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دے گا۔ اسی پراسراریت اور کنفیوژن کا کمال ہے کہ اپریل 2014ء کی ویانا کانفرنس کے دوران ہی سینیٹ فارن ریلیشنز کمیٹی کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے تصدیق کی تھی کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے اور محض دو ماہ کے عرصہ میں ایٹم بم بناسکتا ہے۔ اس کے ساتھ مذاکرات کا مقصد محض یہ ہے کہ بریک آئوٹ ٹائم بڑھا کر ترجیحاً ایک برس یا کم از کم چھ مہینے تو ضرور کردیا جائے۔ ایک بم بنانے کا میٹریل ان کے پاس تیار ہے، جسے وہ کسی وقت بھی جوڑ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ڈیلیوری سسٹم اور دیگر میکانزم کے حصول میں مزید وقت درکار ہوگا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے روس روایتی طور پر مغربی طاقتوں کے موقف کے ساتھ پرجوش نہیں رہا۔ یو کرائن کے حالیہ حالات و واقعات کے بعد تو منظرنامہ اور بھی بدل گیا ہے۔ روس کے ساتھ کریمیا کے ادغام کے نتیجہ میں امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے عائد ہونے والی اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں ماسکو کی پالیسی مزید واضح ہوگئی ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیحات بہت واضح ہیں۔ ہمارے نزدیک کریمیا کا مسئلہ ایران کے جوہری پروگرام سے کہیں زیادہ اہم ہے اور اس حوالے سے تہران کے خلاف امریکہ اور اس کے یورپی دوستوں کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں سے کچھ سروکار نہیں۔ یہ خبریں بھی نکل رہی ہیں کہ روس ایران کے ساتھ 20ارب ڈالر کی دوطرفہ تجارت کا معاہدہ کرنے جارہا ہے جس کے تحت تیل کے بدلے میں وہ ایران کی ضرورتوں کا خیال رکھے گا۔ اور یوں تہران کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی لگائی گئی اقتصادی پابندیاں بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔
تازہ ترین