• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ برکتوں رحمتوں مغفرتوں والے مہینے کا پہلا اتوار۔ اب تو آپ اور اہل خانہ بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بہوئیں داماد سحری کے وقت بھی اکٹھے ہوں گے افطار پر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آپ کے سامنے ہوں گی۔ آج صرف اپنے اور اہل خانہ کیلئے نہیں واہگہ سے گوادر تک کے خوددار محنت کش محبت شعار پاکستانیوں کی خوشحالی کیلئے پروردگار سے دعائیں مانگیں۔ رمضان میں خدائے بزرگ و برتر بہت مہربان ہوتا ہے۔ آج اس مالک حقیقی سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اب تک کے لاپتہ نوجوان اس عظیم مہینے میں گھروں کو لوٹ آئیں ،اب کسی گھرانے کا کوئی نوجوان کوئی بزرگ کبھی لاپتہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ ہماری بڑی چھوٹی عدالتوں کو اپنے منصب کے مطابق انصاف کی توفیق ہو وہ کسی طاقتور سے خوفزدہ نہ ہوں پہلے بھی بڑے بڑے جابر و آمر آئے عدالتوں کو بے دست و پا کرتے رہے لیکن آج انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا ان کی قبروں پر کوئی حاضری نہیں دیتا ان ججوں کو احترام ملتا ہے جنہوں نے حاکموں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

اللہ تعالیٰ سے اس دعا سے ہم 2025اور 1446کے رمضان کا آغاز کر رہے ہیں کہ ہمیں پورے استقلال کے ساتھ روزے رکھنے کی طاقت عطا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ بہت دنوں بعد داتا کی نگری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صبحیں شامیں ہماری درس گاہوں میں گزریں۔ اہل علم سے استفادے کا موقع ملا۔ وفاقی ٹیکس محتسب جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے اچانک نیاز حاصل ہوتا ہے کام کا آغاز تلاوت کلام پاک اور تفسیر کے بعد۔ اس نشست میں تمام اعلیٰ افسر بھی شریک اور پھر ایک اجتماعی ظہرانے میں بھی ہمیں شرکت کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے سرکاری فرائض تو بڑی لگن اور توجہ سے انجام دیتے ہیں لیکن خلق خدا کی پریشانیوں کیلئے بھی ہر لمحے مستعد رہتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں پینے کے صاف پانی کیلئے پلانٹ، رمضان میں راشن اپنے طور پر بانٹتے ہیں۔ جناب الطاف حسن قریشی صاحب فراش ہیں انکی مزاج پرسی کیلئے حاضری ہوئی وہ پرنٹ کی صفوں میں 60 کی دہائی سے مصروف عمل ہیں۔ اردو ڈائجسٹ جیسے منفرد رسالے کی بنیاد رکھی۔ میں پرنٹ اور ڈیجیٹل کو ایک ساتھ لیکر چلنے کا قائل ہوں۔ اسمارٹ فون نے مجھے اشارہ کیا کہ فیس بک لائیو ہونا چاہیے۔ اسکرین پر کئی کتابوں کے مصنف الطاف حسن قریشی صاحب کا چہرہ جیسے ہی جلوہ گر ہوتا ہے پوری دنیا سے حرف شناس سلام کرنےکیلئے بے تاب۔ میرے کسی لائیو پروگرام پر اتنے احباب یکجا نہیں ہوئے۔ چوہدری پرویز الٰہی علیل بھی ہیں مزاحمت کیلئے قابل رشک بھی۔ ان سے ان کے اچھے دنوں میں بڑی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس خاندان کی اعتدال پسندی اور حکمران طبقے سے مفاہمت ہی انکی پہچان رہی ہے لیکن اس بار چوہدری پرویز الٰہی نے پیرانہ سالی کے باوجود جس جرات اور پامردی کا مسلسل مظاہرہ کیا اس کیلئے لازم تھا کہ ہم حاضری دیں ۔علامہ عبدالستار عاصم ہمراہ ہیں۔ ملاقات میں بہت سے سیاسی اسرار، اندرونی رموز مگر یہ کہانی پھر سہی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد جواد نے طلبہ و طالبات اساتذہ سے تبادلہ خیال کا اہتمام کیا ہے۔ ابلاغ اور ادراک لائق تحسین ہیں۔ اس کمرشل دور میں فلسفہ ہمارے ہاں ایک ناپسندیدہ شعبہ ہے مگر یہ نشست کہہ رہی ہے کہ فلسفہ اب بھی ناگزیر ہے فلسفے کے بغیر معاشرہ مستحکم نہیں ہو سکتا فلسفہ تہذیب کی روش متعین کرتا ہے۔ پروفیسر جواد میرے اس شعر کے گرویدہ ہیں

اپنے جغرافیے کے جبر سے لرزاں تاریخ

اپنی تہذیب کو مسلک سے کچلتے ہوئے لوگ

گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ ارم نے طلبہ و طالبات سے مکالمے کا اہتمام کیا ہے۔ خوشی ہے کہ ذہنی ارتقا جاری ہے۔ میں ان محرابوں تلے 61سال بعد گزر رہا ہوں اس نسل کو یاد دلارہا ہوں کہ ڈاکٹر نذیر احمد سائنس کے پروفیسر تھے مگر ادب کے دلدادہ۔ اس وقت کے گورنر نے ان کا تبادلہ کسی اور کالج میں کر دیا تو ہم سب طالب علم سڑکوں پر آگئے تھے۔ ہم یہ مطالبہ نہیں کر رہے تھے کہ ہمارا پرنسپل واپس کرو۔ ہمارا نعرہ یہ تھا ہمارا باپ واپس کرو اور ہمیں پھر اپنا باپ واپس مل گیا ۔ڈاکٹر سفیر حیدر مجلس اقبال کے سربراہ ہیں سالہا سال سے مجلس اقبال معیاری نشستیں منعقد کرتی آرہی ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید ایک بزرگ ایک مشیر کی حیثیت سےکالج میگزین راوی کے ایڈیشن مرتب کر رہے ہیں۔ نون میم راشد کے سو سالہ یوم پیدائش کی مناسبت سے راشد بقلم خود۔ انتخاب نظم راشد۔ نقد راشد۔ بیاض راشد مظہریاتی مطالعہ۔ مرتب کی گئی ہیں جس سے نوواردان بساط اردو کی ذہنی سیرابی ہو رہی ہے۔

میں معذرت کر رہا ہوں کہ ہم نئی نسل کو وہ معاشرہ نہیں دے سکے جو ان کا حق تھا مجھے ان بیٹوں بیٹیوں کی آنکھوں میں ایک تجسس، پیشانیوں پر ایک والہانہ تمتماہٹ نظر آرہی ہے ہمیں تو ان سات آٹھ دہائیوں نے بہت مصلحت سکھا دی ہے مگر میرے مخاطبین عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں ہر منفی سے نبرد آزمائی کا جوش ہوتا ہے۔ خوش ہوں کہ سوال وہی ہو رہے ہیں جو اس دور میں ہونے چاہئیں مگر کیا میں وہی جواب دے پا رہا ہوں جو دینے چاہئیں۔ اخبار جہاں میں 1969میں ہمارے رفیق کار سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے بھی بڑی لگن سے گھر پر ایک عشایے کا اہتمام کیا ہے۔ وہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگلی صبح وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی حکمرانی کا ایک سال پورا ہونے پر 60صفحات پر مشتمل سپلیمنٹ اردو انگریزی سب اخبارات کیلئے جاری کیا جا رہا ہے۔ مشکلات سے دوچار پرنٹ کیلئے حکومت پنجاب کی یہ عنایت کتنی آسانیاں لا سکے گی اور کتنی رسوائیاں ِ،یہ تو وقت بتائے گا۔ پیشہ ورانہ معیار پر یہ سپلیمنٹ پورا نہیں اترتا ہے ،عجلت میں اس کا متن بہت مختصر رکھا گیا ہے اور اسی لیے زیادہ جلی بھی ہے ،تصاویر بکثرت ہیں ۔اس ایک سال پر سرکاری رپورٹوں کے بجائے سینئر صحافیوں ہم خیال ادیبوں شاعروں سے لکھوایا جاتا تو یہ صفحات کچھ اعتبار حاصل کر سکتے تھے۔ ہم نے شہید پاکستان حکیم محمد سعید کا ہمدرد مرکز بھی دیکھا۔ کیا صاحب بصیرت پاکستانی تھے۔ پاکستان کی روح سے سرشار، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے شیدائی ۔نئی نسل بلکہ نئی نسلوں کی تربیت کیلئے 'شام ہمدرد نونہال اسمبلی اور کیا کچھ قائم کر گئے۔ ہمدرد کے علی بخاری صاحب کا شکریہ۔ بہت خوشی ہوتی ہے بیگم سعدیہ راشد ہمدرد کا پیغام اسی طرح پہنچانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ لاہور کا یہ مختصر سا سفر ایک نئی توانائی عطا کر گیا ہے۔ پرنٹ اور ڈیجیٹل کے امتزاج سے اس سفر کی روداد دنیا بھر میں اردو کے عشاق تک پہنچتی رہی ہے۔ تنظیمیں رسالے اشاعت گھر اپنی اپنی جگہ تہذیب و تمدن کی حفاظت اور فروغ میں سرگرم ہیں۔ دعا یہ ہے کہ حکمران طبقوں میں بھی حرف اور ورق سے کچھ انس پیدا ہو جائے ۔سرکاری لائبریریاں تحقیق اور تخلیق کی آبیاری کیلئے اپنا بیسویں صدی والا سرپرستانہ کردار ادا کریں۔

تازہ ترین