• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PCB کھلاڑیوں پر ٹی وی اشتہاروں میں کام کرنے پر پابندی لگائے

کرکٹ پاکستانیوں کے اعصاب پر سوار ہے اور کسی میدان میں شکست برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں کرکٹ کے میدانوں میں عبرتناک ناکامیوں نے انہیں ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کھیل کی کیمسٹری اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید کرنے والے اگرچہ میرٹ پر ہونے والی ہار جیت کو اہمیت نہیں دیتے لیکن کھلاڑیوں کی کارکردگی پر غلطیوں کی کھل کر نشاندہی کرتے ہیں۔کرکٹ کے صف اول کھلاڑیوں کا رحجان کرکٹ سے ہٹ کر ٹی-وی اشتہاروں میں اداکاری کی جانب مبذول ہوا، ان کا کھیل متاثر ہوا اور ہر وہ کھلاڑی جو اشتہاروں میں آنے لگا، کرکٹ کی صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور شکست کی صورت میں زوال ان کا نصیب بننے لگا کیونکہ اپنے کھیل سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس سلسلۂ زوال سے پہلے بھی پاکستان کرکٹ ایک طویل عرصے سے ایک معمہ بنی رہی--کبھی شاندار کارکردگی کے ذریعے دنیا کو حیران کر دیتی، تو کبھی قوم کو شرمساری سے دوچار کر دیتی۔ حالیہ برسوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی، بشمول آئی سی سی ٹورنامنٹس اور دو طرفہ سیریز میں ناکامیوں،نے کرکٹ کے ڈھانچے میں خامیوں، بدانتظامی، اور معیار کی تنزلی پر سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔پاکستان کرکٹ کی تاریخی ناکامیوں کی اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی وجوہات میں قیادت کے مسائل، ناقص ڈومیسٹک اسٹرکچر، غلط سلیکشن، اور حکمتِ عملی کی کمزوریاں واضح طور پر دکھائی دیں گی، جو اس عظیم ٹیم کے زوال کا باعث بنی ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم قیادت کے عدم استحکام کا شکار رہی ہے، جہاں بار بار کپتان کی تبدیلی ٹیم میں بے یقینی اور کمٹمنٹ کے فقدان کو جنم دیتی ہے۔ بھارت، آسٹریلیا، اور انگلینڈ جیسے ممالک میں کپتان کو طویل مدتی حمایت دی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں چند ناکامیوں کے بعد ہی کپتان بدل دیا جاتا ہے۔201ؔ9سے اب تک پاکستان نے مختلف فارمیٹس میں پانچ کپتان بدلے ہیں، جن میں سرفراز احمد، بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی، اور شان مسعود شامل ہیں۔2023میں بابر اعظم کو اچانک کپتانی سے ہٹانے کے فیصلے نے ڈریسنگ روم میں بے چینی پیدا کی، جس سے ٹیم کا مورال متاثر ہوا۔مضبوط اور قابلِ احترام لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم میں گروپ بندی اور اندرونی سیاست نے جنم لیا۔کسی واضح قیادت کے بغیر ٹیم کی کارکردگی میں عدم تسلسل ایک فطری نتیجہ ہے، جو پاکستان کرکٹ کے مسائل کو نمایاں کرتا ہے۔2019 سے 2022کے درمیان عمران خان کی اصلاحات کے تحت ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے خاتمے نے درجنوں کرکٹرز کو بے روزگار کر دیا اور ٹیلنٹ کے بہاؤ کو کمزور کر دیا۔پاکستان کی سلیکشن کمیٹی کو اکثر جانبداری، اقربا پروری، اور غیر شفاف فیصلوں پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کی سیاسی مداخلت نے بھی ٹیم سلیکشن کو نقصان پہنچایا، جہاں بعض کھلاڑی ذاتی یا سیاسی بنیادوں پر ٹیم میں شامل کیے گئے۔جب سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوگی تو ٹیم کا زوال ناگزیر ہے اور پاکستان کرکٹ نے بارہا غلط کھلاڑیوں کے انتخاب کی بھاری قیمت چکائی ہے۔جدید کرکٹ میں ڈیٹا بیسڈ حکمت عملی، جارحانہ بیٹنگ اپروچ اور خصوصی کوچنگ تکنیکس کو اپنایا جا رہا ہے، لیکن پاکستان ان تبدیلیوں کو اپنانے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں پرانا بیٹنگ انداز – جب کہ انگلینڈ، بھارت اور آسٹریلیا جارحانہ بیٹنگ کرتے ہیں، پاکستان کا روایتی اور سست بیٹنگ اسٹرائیک ریٹ کم اسکور اور بیٹنگ کی ناکامیوں کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں آج پاکستان ٹیموں کی پوزیشن ٹیبل پر آخری نمبر پر ہے جبکہ افغانستان کی ٹیم کا شمار دنیا کی مضبوط ٹیموں میں ہونے لگا ہے اور پاکستان باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے تمام درجہ بندیوں سے مبراء ہو چکا ہے۔جدید کرکٹ کے اصولوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان دیگر بڑی ٹیموں سے پیچھے رہ گیا ہے اور مخالف ٹیمیں پاکستان کی کمزوریوں سے آسانی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔پاکستان کرکٹ کا کوچنگ نظام بھی عدم استحکام کا شکار ہے، جہاں بار بار تبدیلیاں اور اہم مہارتوں کے لیے ماہر کوچز کی کمی ٹیم کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔غیر تجربہ کار غیر ملکی کوچز کی تقرری مثلاً 2023 میں مکی آرتھر کا جز وقتی کردار کی وجہ سے ٹیم کی حکمت عملی کمزور رہی۔بیٹنگ کوچز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستانی بیٹسمین معیاری باؤلنگ کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں، خاص طور پر ٹیسٹ اور ون ڈے فارمیٹ میںوسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عظیم بولرز بارہا نوجوان پیسرز کے لیے مناسب رہنمائی نہ ہونے پر تنقید کر چکے ہیں، جس سے پاکستان کی تیز گیند بازی کا معیار کمزور ہوا ہے۔پاکستان کی حالیہ ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ ذہنی مضبوطی کا فقدان اور بڑے مقابلوں میں دباؤ برداشت نہ کر پانا ہے۔ٹیم میں جیت کا رویہ نہیں پایا جاتا، جو نازک لمحات میں گھبراہٹ اور میچ کے خاتمے میں ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

تازہ ترین