• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر 1977کو دہلی میں اُردو گھر یعنی انجمن ترقی اُردو ہند کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے یہ بات کہی تھی،جب آنند نرائن ملا نے اُردو میں اپنا سپاس نامہ ان کی خدمت میں پڑھ کر پیش کیا تو انہوں نے کہا ’’یہ کیا زبان ہے؟ میں تو اسے سمجھتا نہیں‘‘۔ اور پھر پارلیمنٹ میں ایک ممبر کا پنڈت جواہر لال نہرو سے یہ سوال کہ ’’اُردو کس کی زبان ہے جو اسے ہندوستان کے کانسٹی ٹیوشن میں زبان کی حیثیت دی جا رہی ہے؟‘‘۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے اگر جواب پا لیے جائیں تو اُردو کے بارے میں تمام ’’کیوں ،کب اور کیسے‘‘ کے جواب مہیا ہو جاتے ہیں۔ اُردو زبان کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک کمسن زبان ہے جس کی عمر یہی کوئی دو ڈھائی سو سال سے زیادہ نہیں، یہ مغلوں کے دور میں ضرورت کے تحت وضع کی گئی تھی اور چو نکہ بہت سی زبانوں کا ملغوبہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی اپنی ٹھوس اور بنیادی حیثیت نہیں ہے لہٰذا اسے ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے میں پیش کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں وغیرہ۔ جدید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ برصغیر کی پرانی اور مقبول زبانوں میں سے ایک ہے پہلے اس میں آریائی زبانوں کے الفاظ شامل تھے تو اسے ہم ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ کہتے رہے۔ یہ بات نہ صرف لاثانی محقق کہتے رہےبلکہ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر کے۔سی چیٹر جی تک اس امر سے متفق ہیں۔ اردو زبان کی اپنی ایک ثقافت ہے لیکن عجیب بات ہے کہ اس کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس میں عربی فارسی، ترکی اور دوسری زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہو گئے مگر اس کی بناوٹ اور ساخت میں کوئی فرق نہیں آیا اُردو ابتدا ہی سے ہندوستانیوں کی زبان رہی ہے مگر پہلے اس کے لیے ’’اُردو‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ پروفیسر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ لاثانی تحقیقات کی بنا پر اُردو کے متعلق جو قابل قدر مواد جمع ہوا ہے اس میں اُردو کے بدلتے ناموں کے بارے میں معلومات دقیق ہی نہیں دلچسپ بھی ہیں کہتے ہیں کہ شاہجہاں نے اس زبان کو فضیلت کا درجہ دیتے ہوئے اس کا نام اُردو معلی رکھا لیکن زبان کے لیے یہ نام زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور آخر کار صرف اُردو رہ گیا حافظ محمود شیرانی کے بقول سب سے پہلے محمد عطا حسین خان نے اپنی کتاب ’’نو طرز مرصح‘‘ میں زبان کیلئے اُردو کا لفظ استعمال کیا تو اس طرح شاعری میں مراد شاہ لاہوری نے لفظ اُردو کو روشناس کرایا۔

یہ تو تھا اس کا مختصر خاکہ اب آئیے دوسری جانب توجہ دیتے ہیں روایت ہے کہ جب چنگیزی فوجیں آندھی اور طوفان کی طرح بابل و نینوا کی طرف بڑھ رہی تھیں تو فرات کے دونوں کناروں پر علماء عجیب مخمصے میں پھنسے ہوئے تھے۔ اور جب یہ فوجیں مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے کر کے بغداد، بابل اور نینوا کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھیں تو فرات کے دونوں کناروں پر عالم فاضل لوگ ان دو سوالوں کی بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ سوئی کے ناکے سے ایک وقت میں کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ وہ نماز کیلئے وضو کرتے ہوئے اپنے دائیں پیر پر زور دینا چاہیے یا بائیں پیر پر... میری بات اتنی بڑی نہ سہی پر اہم ضرور ہے اور وہ یہ کہ ہم لوگ ہندو پاک برطانیہ یا مغرب میں اُردو کے مستقبل کے متلاشی ہیں لیکن میرے حساب سے بھارت اور مغرب میں اپنے عظیم الشان مشاعروں عالمی سیمیناروں اور بین الاقوامی مذاکروں کے باوجود اُردو زبان مر رہی ہے زیادہ سے زیادہ دو دہائیوں کے بعد اُردو ان جگہوں پر صرف بولنے کی زبان رہ جائے گی۔ ہمیں اس تلخ حقیقت سے جلد اور بخوبی آگاہ ہو جانا چاہیے کہ یہاں،وہاں اور تہاں ،موجودہ نسل دائیں سے بائیں شعر یا افسانہ لکھ کر شاعر یا ادیب کا لقب پانے والی ان پیڑھیوں کی آخری پیڑھی سے تعلق رکھتی ہے، آخری اسلئے کہ اسکے بعد ان گھرانوں میں جو پود آئی ہے وہ خواہ بولتی دائیں سے بائیں کو ہو لیکن لکھنے پڑھنے کا کام بائیں سے دائیں ہی کرتی ہے اس کی یہ معذوری اُردو کامقدر ہے اب رہ گئی بات پاکستان کی تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر پنجاب سے اُردو رخصت ہو گئی تو پورے برصغیر میں اُردو کے تن پر صرف لنگوٹی رہ جائے گی، یہ مفروضہ نہیں تجزیہ ہے۔ بھارت پاکستان برطانیہ امریکہ اور کنیڈا میں اُردو دان طبقے کے بڑے سے بڑے دانشور اور کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ پانے والے ادارے یا وظیفہ پانے والی کسی اکیڈمی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اُردو کاا سکرپٹ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟

میرے حساب سے اُردو کی بقا کا مسئلہ کلچر سے زیادہ سیاسی ہے اس کیلئے سائنسی فکر اور اعلیٰ درجے کے علم کی ضرورت ہے جن سے ہم فی الحال بے بہرہ ہیں معاشرے میں ہمارا عمومی رویہ خود غرضی اور انفرادیت پسندی کا بن چکا ہے جس معاشرے میں خواندگی (پاکستان) کی شرح مبالغہ آمیزی کے باوجود 22فیصد ہو وہاں بے چارہ دانشور 5 سٹار ہوٹلوں کے سیمینار میں حاضرین سے اپنی دانشوری کی سند تو لے سکتا ہے لیکن اُردو کی حفاظت اور بقا کیلئے کیا کر سکتا ہے۔ ہائے بیچارہ دانشور۔۔۔۔۔۔

تازہ ترین