• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر واقعہ ہے کہ سی پیک کے آپریشنل ہونے سے خطے میں امن کا قیام سی پیک سے منسلک ممالک کی اپنی ضرورت بن جائیگا۔ اس تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم محمد اسحاق ڈار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے چین‘ برطانیہ‘ عرب ممالک اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے حالیہ دورے علاقائی امن اور ترقی و خوشحالی کے راستے نکالنے کی جانب اہم پیشرفت ہیں۔ ترجمان دفترخارجہ نے گزشتہ روز اسی تناظر میں کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ازبکستان سے دوطرفہ تعلقات میں وسعت آئیگی اور مشترکہ مفادات میں تعاون بڑھانے کے راستے ہموار ہونگے۔ آج خطے کے ممالک کو بلا شبہ امن کی زیادہ ضرورت ہے جو دوطرفہ اقتصادی، تجارتی تعاون کو فروغ دیکر ہی ممکن ہے۔

ہمارے لئے یہ اطمینان بخش صورتحال ہے کہ مشرق وسطیٰ اور عرب ریاستوں کے ساتھ ہمارے مسلم برادرہڈ والے جذبے کے تحت انتہائی خوشگوار برادرانہ تعلقات ہیں جبکہ ہمارے اپنے خطے کے ممالک کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے جن کی جانب سے پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے جذبے کا اظہار ہی نہیں کیا جارہابلکہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے بھی حوصلہ افزاپیش رفت کی جا رہی ہے۔ آج جبکہ دنیا میںعالمی و علاقائی تنازعات کے باعث علاقائی اور عالمی امن داؤ پر لگا ہوا ہے اور امریکی سرپرستی میں بھارت اور اسرائیل کی جنگی جنونی کارروائیاں تیسری عالمی جنگ کے خطرات بڑھا رہی ہیں جو بالآخر پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے‘ خطے کے ممالک امن و آشتی اور اقتصادی تجارتی تعاون کو باہم فروغ دے کر بھائی چارے والے معاشرے کی بنیاد مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس کیلئے گوادر پورٹ اورپاکستان چین اقتصادی راہداری سی پیک کا بلاشبہ کلیدی کردار ہوگا جس کے ذریعے اس خطے کے علاوہ وسطی ایشیائی‘ خلیجی، سنٹرل ایشین اور مغربی یورپی دنیا کی منڈیوں تک باہمی تجارت کا راستہ کھل رہا ہے جو لامحالہ اقوام عالم کو ترقی و خوشحالی کے روشن مینار کی جانب گامزن کرےگا جبکہ ترقی کے اس سفر میں امریکہ اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پر بھی زد پڑیگی۔ اس ناطے سے پاکستان کی اسٹرٹیجکل اہمیت بڑھ رہی ہے جو سی پیک کے ناطے ترقی کے سفر میں دنیا کے مابین رابطے کے پل کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے تابناک مستقبل کی اس خوش آئند صورتحال کو بھانپ کر ہی بھارت نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی اور امریکہ کو بھی اس حوالے سے پاکستان سے بدگمان کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پاکستان کیخلاف بھارتی سازشوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور وہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کیلئے بروئے کار لارہا ہے تاکہ بیرونی دنیا کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوصلہ افزا رجحانات کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔ اگر ان بھارتی مکارانہ چالوں کے باوجود پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی فضا سازگار ہو رہی ہے اور چین کے علاوہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی جانب سے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے راستے ہموار ہو رہے ہیں تو یہ علاقائی اور عالمی امن کی جانب اہم پیش رفت ہے۔

گزشتہ ہفتے ابوظہبی کے ولی عہد اور ابوظہبی ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین شیخ خالد بن محمد بن زید النیہان نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے ملاقات کی۔ دوطرفہ ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک اپنے بہترین سیاسی تعلقات کو باہمی طورپر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ابوظہبی کے اس اعلیٰ سطح کے دورہ پاکستان کے موقع پر متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے مابین بینکنگ، کان کنی، ریلویز اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے۔

دوسری جانب پاکستان میں افغانستان سے در اندازی اور افغان طالبان کی چھتر چھایا میں ہونے والی دہشتگردی کی کارروائیاں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود افغان طالبان کی عبوری حکومت کہتی ہے کہ ہم اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ 28 فروری کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے غلام خان کلے میں 14 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا جن میں افغان دہشتگرد بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک ہلاک افغان دہشتگرد کی شناخت مجیب الرحمن عرف منصور ولد مرزا خان کے نام سے ہوئی جو دندار گاؤں، ضلع چک، صوبہ میدان وردک، افغانستان کا رہائشی تھا۔ دہشتگرد مجیب الرحمن افغانستان کی حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر تھا۔ اس سے پہلے 30 جنوری کو بدرالدین ولد مولوی غلام محمد کو ڈیرہ اسماعیل خان میں دوران آپریشن ہلاک کیا گیا تھا جو افغان فوج میں لیفٹیننٹ اور صوبہ باغدیس کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا تھا۔ ادھر طورخم سرحد پر پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ کشیدگی کے پیش نظر طورخم ٹرانزٹ ٹرمینل کو کارگو گاڑیوں سے خالی کرا لیا گیا۔ پاکستان کا تو شروع دن سے یہی موقف رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں افغانستان براہ راست ملوث ہے اور اس کے کئی ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔ افغان طالبان کو شاید اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں کہ ان کی اکثریت پر پاکستان کے کتنے احسانات ہیں۔ ایک طرف وہ اسلام کا نام لیتے ہیں اور دوسری جانب احسان فراموشی کی ایسی روایت اپنائے ہوئے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جو ملک پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو پاکستان کو بھی اس کے ساتھ دشمنوں والا ہی سلوک کرنا چاہیے اور اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کی بقا کیلئے جو بھی اقدامات کیے جا سکتے ہیں کیے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین