کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور مصروف ترین شہر، جہاں سڑکوں پر لاکھوں گاڑیاں روزانہ رواں دواں رہتی ہیں۔ اسی ہجوم میں تقریباً پچاس لاکھ سے زائد موٹرسائیکل سوار بھی شامل ہیں مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے تیس سے پینتیس لاکھ افراد بغیر لائسنس کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ یہی نہیں، نوے فیصد موٹر سائیکلوں میں بیک ویو میرر نہیں ہوتے، اور اکثریت ہیلمٹ پہننے کی زحمت بھی نہیں کرتی۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ہر روز درجنوں معصوم جانیں سڑکوں پر حادثوں کی نذر ہو جاتی ہیں، کئی لوگ ہمیشہ کیلئے معذور ہو کر زندگی کے رحم و کرم پر آ جاتے ہیں۔جب بھی کراچی میں کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو الزام ہمیشہ ہیوی ٹریفک یعنی ٹرک اور ٹرالر ڈرائیور پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بے شک، ان ڈرائیوروں کی لاپروائی، غلط ڈرائیونگ سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر کیا سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں صرف یہ ڈرائیور قصور وار ہیں؟ ہر گز نہیں! ان حادثات میں موٹرسائیکل سوار بھی برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں تاہم غلط ہمیشہ بڑی گاڑی والے یا ٹرک ،ٹرالر والے کو ہی کہا جاتا ہے ،کراچی کی سڑکوں پر سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ہوتے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر حادثات خود موٹرسائیکل سواروں کی غفلت کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ ذرا سوچئے، ایک شخص بغیر ہیلمٹ، بغیر بیک ویو میرر، بغیر لائسنس، مین سڑک کے درمیان میں، کسی بڑی بس یا ٹرالر کے ساتھ ساتھ اپنی موٹرسائیکل چلا رہا ہے، ایک لمحے کی بے احتیاطی، ایک چھوٹا سا غلط فیصلہ، پوری زندگی کا سفر ختم کر سکتا ہے۔کراچی میں بیشترحادثات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موٹرسائیکل سوار بنیادی حفاظتی اصولوں پر عمل نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
بیک ویو میرر کسی بھی موٹر سائیکل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، جن کے ذریعے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو دیکھ کر احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ مگر کراچی میں نوے فیصد موٹر سائیکلوں پر یہ آئینے موجود ہی نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے اکثر موٹر سائیکل سوار اچانک بغیر دیکھے یوٹرن لیتے ہیں اور کسی تیز رفتار بس، ٹرالر یا ٹرک کی زد میں آ جاتے ہیں۔
بغیر لائسنس موٹر سائیکل چلانا:شہر میں لاکھوں موٹر سائیکل سوار قانونی اجازت نامہ (ڈرائیونگ لائسنس) لیے بغیر سڑکوں پر دوڑ رہے ہیں۔ ایک ایسے شخص کو جو ٹریفک قوانین سے واقف ہی نہیں، وہ کیسے سڑک پر محفوظ طریقے سے گاڑی چلا سکتا ہے؟
ہیلمٹ زندگی اور موت کے درمیان ایک دیوار کا کام کرتا ہے، مگر پھر بھی بیشتر موٹر سائیکل سوار اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ہونے والے موٹر سائیکل حادثات میں مرنے والے افراد کی اکثریت سر پر چوٹ لگنے کے باعث ہلاک ہوتی ہے۔ سڑکوں پر ایک مخصوص لین موٹر سائیکل سواروں کیلئے ہوتی ہے، مگر اکثر یہ لوگ تیز رفتار ٹرکوں، بسوں اور گاڑیوں کے درمیان اپنی موٹر سائیکلیں دوڑاتے نظر آتے ہیں۔ ٹرک، ٹرالے، بڑی بسیں اور دیگر ہیوی وہیکلز اچانک بریک نہیں لگا سکتے، کیونکہ ان کے بریک لگانے کا فاصلہ عام گاڑیوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر اکثر موٹر سائیکل سوار بے خوف ہو کر ان بڑی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اکثر ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔
جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے ٹرک، ٹرالر یا بس کے ڈرائیور کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، مگر کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ حادثے میں مرنے والے موٹر سائیکل سوار نے خود کون کون سی غلطیاں کی تھیں؟ کیا وہ بیک ویو میرر کے بغیر سڑک پر آیا تھا؟ کیا اس نے ہیلمٹ پہنا تھا؟ کیا اس نے ہیوی گاڑیوں سے کم از کم دس فٹ کا فاصلہ رکھا تھا؟
جب کوئی شخص موٹر سائیکل حادثے میں مارا جاتا ہے تو صرف ایک فرد نہیں مرتا، بلکہ اس کا پورا خاندان برباد ہو جاتا ہے۔ اس کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں، بیوی بیوہ ہو جاتی ہے، والدین بے سہارا ہو جاتے ہیں۔ اگر حادثے میں زندگی بچ بھی جائے مگر معذوری ہو جائے تو اس شخص کی پوری زندگی مشکلات میں گزرتی ہے۔
موٹرسائیکل سواروں کیلئے چند اہم مشورے جو انکی زندگی بچانے میں اہم ہو سکتے ہیں ۔ہیلمٹ کا لازمی استعمال کریں۔ موٹر سائیکل کے بیک ویو میررز مکمل رکھیں۔ بغیر ڈرائیونگ لائسنس موٹر سائیکل چلانے سے گریز کریں۔ ہمیشہ اپنی مخصوص لین میں رہیں اور مین سڑک کے درمیان میں موٹر سائیکل نہ چلائیں۔ ہیوی گاڑیوں سے کم از کم دس فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ رات کے وقت موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹس اور اشارے درست طریقے سے استعمال کریں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ احتیاطی تدابیر اپنا کر نہ صرف ہم خود اپنی جان بچا سکتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو سڑک کے خونیں کھیل سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ زندگی قیمتی ہے، اسے لاپروائی کی نذر نہ کریں!