معاشرتی برائیوں کا تذکرہ کیا کیا کہ دنیا بھر سے کئی پاکستانیوں نے رابطہ کیا اور تجاویز دیں، سوئے ہوئے ضمیروں کو کیسے جگایا جا سکتا ہے؟ معاشرے کی ابتر صورتحال کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟ احساس مروت کو کس طرح کچلا گیا؟ کئی درد ناک کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ یہ کہانیاں، یہ تجاویز آئندہ کسی کالم میں بیان کروں گا، فی الحال ایک بڑا تضاد میرے سامنے ہے، میں حیران ہوں کہ یہ تضاد کیوں ہے؟رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے لوگ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کے ذریعے فلاحی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، کوئی شوکت خانم کو عطیات دے رہا ہوتا ہے تو کوئی الخدمت کو، کوئی النور فاؤنڈیشن کو عطیات دیتا ہے، کسی کا رخ سندس فاؤنڈیشن کی جانب تو کوئی اپنے عطیات مظفر گڑھ میں قائم غوثیہ کالج کی نذر کرتا ہے۔ معاشرے میں اسی طرح کی کئی فلاحی تنظیمیں اور ادارے ہیں جنہیں نہ صرف وطن میں بسنے والے سپورٹ کرتے ہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی دل کھول کر میدان میں اترتے ہیں۔ حساب کتاب کرنیوالے بتاتے ہیں کہ عطیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں پاکستانی لوگ پہلے نمبر پر ہیں، حساب کتاب کرنے والے فلاحی کاموں کے حساب سے اس قوم کی عظمت بیان کرتے ہیں مگر میرے سامنے عجیب و غریب سوال ہے، نیکی اور فلاح کے کاموں میں شریک ہونے والی قوم کا ’’معاشرتی چہرہ‘‘ بڑا بھیانک ہے، بھیانک اسلئے کہ ایک طرف فلاح کا یہ عالم ہے کہ لوگ دل کھول کر عطیات دیتے ہیں اور تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ رمضان آتے ہی ہمارے دکاندار چیزوں کو اتنا مہنگا کر دیتے ہیں کہ انہیں نا جائز منافع خوری کرتے وقت خوف خدا تک نہیں آتا۔ اسی طرح چیزوں میں ملاوٹ کرنا معمول بن چکا ہے، لوگ ملاوٹ کرنے کو جرم سمجھتے ہی نہیں، لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہی چلے جاتے ہیں، ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی عام ہے، ہر طرف ظلم و جبر کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں، میرے خیال میں پاکستان کا کوئی پولیس اسٹیشن ایسا نہیں جہاں حرام خوری نہ ہوتی ہو بلکہ اب تو کوئی محکمہ بھی ایسا نہیں جہاں رشوت اور کمیشن کے تذکرے نہ ہوں، لوگ طاقت کے زور پر رشوت وصول کرتے ہیں، بھتہ خوری عام ہے، مافیاز کا راج ہے، لوگوں کے پلاٹوں، زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کئے جاتے ہیں، لوگ عدالتوں اور کچہریوں میں دھکے کھاتے ہیں، انہیں انصاف نہیں ملتا۔ یہاں تعلیم تجارت بن چکی ہے، یہاں ڈاکٹرز صحت کے نام پر کاروبار کرتے ہیں، یہ کیا تماشا ہے کہ سرکاری افسران حکومت سے تنخواہیں بھی لیتے ہیں اور ٹھیکے دے کر کمیشن بھی وصول کرتے ہیں، یہ کمیشن حرام خوری نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے تو ان ٹریفک اہلکاروں پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جنہیں یہ سبق حکومت پڑھاتی ہے کہ آپ تنخواہ ریاست پاکستان سے لیں گے مگر جتنے چالان کریں گے، آپ کو ہر چالان پہ کمیشن کی ادائیگی ہو گی، جب ہر چالان پر کمیشن کی ادائیگی اصول بن جائے تو پھر ٹریفک اہلکاروں کا دھیان ٹریفک کے بہاؤ کو یقینی بنانے کی بجائے چالان کی طرف ہی ہو گا۔ یہ کیا دھندہ ہے کہ ایک آدمی حکومت سے تنخواہ بھی لے رہا ہے اور لوگوں کے جبری چالان کر کے کمیشن کی صورت میں حرام خوری بھی کر رہا ہے۔ حکمرانوں نے پتہ نہیں اخلاقیات کی کون سی کتاب سے یہ سبق پڑھا ہے کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی دو اور کمیشن کی صورت میں حرام خوری کو جائز بھی قرار دو، یہ منطق میرے جیسے سادہ لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اسی طرح سے کمیشن کے نام پر رشوت بٹورنے کا عمل حرام خوری ہی تو ہے۔معاشرے میں یہ تضاد کیوں ہے؟ ایک طرف فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تو دوسری طرف بددیانتی کرنا، دونوں عروج پر کیوں ہیں؟ لگتا ہے ہمارے معاشرے کا ’’چہرہ‘‘ ایسا ہے جس کا ایک گال سرخ و سفید اور دوسرا گال سیاہ ہے، اس پر خوفناک دھبے ہیں، ایک ہی چہرے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟ عائشہ مسعود کا شعر یاد آتا ہے کہ
ہے بہت دشوار عاشی آئینے کا سامنا
کون سا چہرہ کرو گے آئینے کے سامنے